"جھوٹ بولے، کوّا کاٹے” ایک مشہور فقرہ ہے۔ مگر، اس میں یہ کمی ہے کہ اس سے یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ جھوٹ کوئی بہت بری اور نقصان دہ چیز ہے، جب کہ جھوٹ، یقیناً، کوے کے کاٹنے سے زیادہ مہلک ہے۔
اس کے علاوہ، معاشرہ ایک دوسرے مقولہ سے بھی واقف ہے، اور وہ ہے:
"جھوٹے کا مونھ کالا "۔ بے شک، یہ فقرہ کافی حد تک جھوٹ کی سہی نمائندگی کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ اس بات کی مزید وضاحت اس محاورے سے ہو جاتی ہے کہ The face is the index of character یعنی چہرہ کردار کا آئینہ ہوتا ہے۔ جھوٹ انسان کے باطن کو یا دوسرے الفاظ میں، اس کی شخصیت کو کالا کر دیتا ہے اور اس کا عکس اس کے چہرے سے بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔
یہ کیسا عجیب معاملہ ہے کہ اتنی سنگین صورت حال کے باوجود، بیشتر انسان جھوٹ کی کالک سے محفوظ رہنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ یہ بات کہ جھوٹے کا مونھ کالا، وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے، کیوں کہ کالا، بالفاظ دیگر، اندھیرا انسان کو بھٹکا نے میں تو معاون ہو سکتا ہے، منزل کی سمت راہ دکھانے میں قطعاً نہیں! جھوٹ، ایک ایسی ہی تنگ و تاریک بند گلی ہے جہاں کی زندگی میں ذلت اور رسوائی کے سوا اور کچھ نہیں۔ جھوٹ کی بند گلی میں داخل ہونے کے بعد عزت و کامرانی کے سارے راستے بند ہوجاتے ہیں۔ یقیناً، وہ لوگ خوش نصیب ہیں جو جلد ہی جھوٹی زندگی سے توبہ کرکے سچے لوگوں کی صف میں شامل ہو جائیں۔
دنیا اور آخرت، دونوں جگہ جھوٹے انسان کے وحشت ناک انجا کو سوچ کر گھبراہٹ ہوتی ہے اور تعجب بھی ہوتا ہے کہ گونا گوں خصوصیات کا مالک انسان کیوں کر جھوٹ کا غلام ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ تعجب کی کیفیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب خود مسلم معاشرہ بڑے پیمانے پر جھوٹ کا شکار نظر آتا ہے، جب کہ قرآن و حدیث جھوٹے انسان کے برے انجام کے متعلق وعیدوں سے بھرے پڑے ہیں۔ مسلم معاشرہ میں اس پہلو سے بھی کوئی گھبراہٹ یا فکر مندی نظر نہیں آتی کہ حاملین کتاب (قرآن) ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ صرف خود اطاعت کریں، بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کی نسبت سے دنیا کے تمام انسان بھائیوں کو بھی ربانی ہدایات سے متعارف کرائیں
چوں کہ جھوٹ نہ صرف آخرت کے زاویہ سے ہی مضر ہے، بلکہ اس کے برے نتائج سے انسان دنیا میں بھی محفوظ نہیں ۔ اس لیے زیر نظر مضمون میں، اپنے بھائیوں، خصوصاً مسلم نوجوانوں کو مختلف پہلوؤں سے یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جھوٹ میں شر ہی شر ہے، کوئی خیر نہیں، سوائے اس کے کہ کسی بے گناہ کی جان بچانے کےلیے یا لوگوں میں صلح کرانے کی غرض سے، حقیقت سے قطع نظر، کوئی بات بنا کر اپنی طرف سے پیش کردی جائے۔
یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ معاشرہ میں شاید ہی ایسا کوئی شخص ہوگا جو اپنے معاملات اور کاروبار میں ‘فائدہ مند’ اور ‘بےفائدہ’ کاموں کے درمیان فرق کرنا نہ جانتا ہو۔افسوس مگر یہ ہے کہ جھوٹ کے معاملے میں بیشتر لوگ کم عقل ثابت ہو رہے ہیں۔
پیدا ہونے والا ہر بچہ فطرت پر پیدا ہو تا ہے (الروم: 30)۔ کائنات سچائی کی بنیاد پر تخلیق کی گئی ہے، جب کہ جھوٹ سچائی کی ضد ہوتی ہے۔ انسان اپنی فطرت میں خیر و شر کا شعور لے کر پیدا ہوتا ہے، اس لیے وہ جھوٹ کے شر ہونے کا ادراک آسانی سے کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود، معاشرہ میں جھوٹ کا بول بالا ہے۔ غور کرنے پر، جھوٹ کو برا نہ جاننے کی وجہ اس حقیقت میں پوشیدہ نظر آتی ہے کہ "Habit is second nature” یعنی برابر عمل کرنےکی صورت میں، عادت آہستہ آہستہ فطرت کی کیفیت حاصل کر لیتی ہے۔ اسی لیے عادت کو دوسری فطرت سمجھا جاتا ہے۔ یہاں ذی شعور لوگوں کے لیے واضح اشارہ موجود ہے کہ وہ اپنے اندر بری عادتوں کی نشونما سے اپنی حفاظت کریں۔ اسی تناظر میں، رات و دن جھوٹی زندگی بسر کرنے والوں کی عادت ان کی فطرت بن جاتی ہے اور اس طرح وہ جھوٹ میں کسی بھی قسم کی کوئی برائی دیکھنے کی نظر سے محروم ہوجاتے ہیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، یہاں تک کہ توبہ اور اصلاح کئے بغیر ہی انسان ایک دن دنیا سے رخصت ہو جا تا ہے۔
مضمون ھذا کے ذریعہ میں چاہتا ہوں کہ میری معلومات اور تجربات کی روشنی میں ہمارے معاشرہ کو اس حقیقت کا اچھی طرح ادراک ہو جائے کہ جھوٹ ایک بہت ہی سنگین برائی ہے، اور ان کے دلوں میں اس کے تعلق سے کراہیت پیدا ہوجائے ۔ بظاہر ایک جھوٹا شخص بھی دنیا کی رونقیں حاصل کرتا ہوا نظر آتا ہے، مگر تجزیہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ سچے آدمی کی وسعت کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں۔
معاشرے میں موجود جملہ برائیاں جھوٹ کے بطن سے ہی نمودار ہوتی ہیں، اس لیے جھوٹ کو ام الخبائث، یعنی ساری برائیوں کی ماں بھی کہا گیا ہے۔ جھوٹ بولنے والے کا دل سیاہ اور چہرہ بے رونق ہو جاتا ہے۔ جھوٹ بولنے والا انسانوں کے سامنے ہی بے اعتبار و بے وقار نہیں ہو جاتاہے، بلکہ جھوٹے آدمی پر اللہ تعالیٰ کی لعنت بھی ہوتی ہے ( آل عمران: 61)۔ اللہ تعالی کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور منکر حق ہو( الزمر: 3 ) اس ضمن میں اللہ تعالی کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے بھی یہ بیان کیا گیاہے کہ مسلمان بزدل ہو سکتا ہے اور بخیل بھی ہوسکتا ہے، مگر وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا، یعنی کوئی بھی اہل ایمان جھوٹ نہیں بول سکتا۔
اس کے بر عکس، اللہ تعالی نے قرآن پاک کی مختلف آیات کے حوالے سے، سچے لوگوں کی تحسین کی ہے۔ مثال کے طور پر ( المائدہ:119) اور (التوبه:119)۔جھوٹ جیسی غیر فطری، اور غیر اخلاقی برائی سے خود کو محفوظ کرلینا، گویا کہ انسانوں کی دنیا میں ہورہی آزمائش میں سر خروئی حاصل کر لینا ہے۔ انسان کا اذلی دشمن شیطان جھوٹ اور جھوٹ سے وابستہ برائیوں کو الگ الگ زاویوں سے اتنا حسین و دلکش بنا کر پیش کرتا رہتا ہے کہ انسان کو جھوٹ اور مکاری میں ہی اپنی فتح و کامرانی نظر آتی ہے، اور حد تو تب ہو جاتی ہے جب وہ "سچ کے دم پر خوش حالی اور کامیابی ممکن نہیں” جیسے کفریہ کلمات اپنی زبان سے ادا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اللہ تعالی اس حالت کو پہنچنے سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
انسان کے پاس توبہ اور رجوع کی گنجائش، بقید ہوش و حواس، ہمیشہ بنی رہتی ہے۔ جتنی جلدی ہوسکے، ہر شخص کو اس ربانی عنایت سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے، خود کو اور اپنے عزیز بیٹے، بیٹیوں کو جھوٹ کی گندگی سے پاکیزہ بنانے کی سعئ کرنی چاہیے۔ اللہ تعالی کا فضل و کرم تو دیکھئے، وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اپنے پروردگار کی رحمت سے مایوس نہ ہوں(الزمر: 53)۔
یہ بھی یاد رہے کہ پاکیزہ افراد ہی جنت کی معیاری دنیا میں آباد کئے جائیں گے (الشعراء: 89)۔
وہ افراد بہترین اور خوش نصیب انسان ہوتےہیں جو اپنی فطرت کو زندہ رکھنے میں کامیاب ہوجائیں، یعنی سچائی پر قائم ہوجائیں، کیوں کہ اچھی چیز( سچ) کو چھوڑ کر بری چیز( جھوٹ ) کو اپنانا، بد بختی کی علامت ہے۔
انسان کی خفیہ فطری استعداد (Latent talent) اس کے خیال و گمان سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ جھوٹے اشخاص تو آفاق و انفس کے عجائبات سے، گویا کہ محروم ہی رہ جاتے ہیں۔ جھوٹ سے خود کو پاکیزہ نہ کر پانے والے افراد اپنے پوٹینشیل (potential) سے بہت زیادہ دور ہوتے ہیں، اور اس طرح اپنی اصلی استعدادی حیثیت حاصل نہیں کر پاتے اور ذہنی بونے پن (intellectual dwarfism) کا شکار ہو کر رہ جاتےہیں۔
جانتے ہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ غیر محدود خصوصیات، جن کے ساتھ انسان کو تخلیق کیا گیا ہے، بالقوہ (potentially) حالت میں سافٹ ویر (software) کی مانند انسان کی شخصیت کے آپریٹنگ سسٹم(Operating system) سے وابستہ کردی جاتی ہیں، جس کو استعمال کرنے کے لیے پاس ورڈ(password) کی ضرورت ہوتی ہے۔ ‘سچائی'(truthfulness) مذکورہ سستم کا پاس ورڈ ہے۔ جھوٹے آدمی کے پاس سہی چابی(password) نہ ہونے کی وجہ سے وہ سسٹم کو ٹھپ(block) کر لیتا ہے۔ پاس ورڈ کو ری سٹ(reset) کرنے کی کوشش کرتے وقت ‘فارگیٹ پاس ورڈ'(forget password) کی سہولت کو استعمال کرنے کے لیے "توبہ” اور "استغفار” درکار ہوتے ہیں۔ ایسا کرنے پر، اللہ تعالی کے حکم سے فرشتے، اس کے جھوٹے اسٹیٹس(status) کو ‘سچے’ اسٹیٹس سے بدل دیتے ہیں۔ کائنات، جس کو خالق کائنات نے انسان کے لیے مسخر کر دیا ہے، پھر سے اس کی دسترس میں آجاتی ہے اور ‘آفاق و انفس’ کے نئے نئے حقائق کی دریافت کا راستہ اس کے لیے بھی کھل جاتا ہے (فصلت: 53)۔
جھوٹ کے متعلق انسان کو ہر وقت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ جھوٹ ایسی لعنت ہے کہ جھوٹے آدمی کے "منافقت” جیسی قبیح برائی کے اندھیروں میں بھٹک جانے کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ حدیث شریف کے مفہوم کے طور پر، یہ منافق کی علامتوں میں سے ہے کہ "جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے” (صحیح مسلم: 211 )، جب کہ قرآن پاک منافقوں کے لیے درد ناک عذاب کا اعلان کرتا ہے( البقرہ: 10 )۔
اوپر بیان کئے گئے حقائق، خاص طور پر، ان لوگوں کو ہلا دینے کے لیے کافی ہونے چاہئیں جو اللہ رب العزت، اس کے آخری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آخرت میں یقین رکھتے ہیں۔ اس تناظر میں، ایک مومن معمولی سے معمولی بےاحتیاطی کا بھی تحمل نہیں کر سکتا۔ جھوٹ پر مبنی شیخی خوری، ہنسی- مذاق، لطیفے- چٹکلے اور لایعنی باتیں مہلک ثابت ہو سکتی ہیں۔ قرآن و حدیث کے بیانات سے بخوبی اندازہ ہوجانا چاہیے کہ جھوٹ اللہ تعالی اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناپسند ہے۔ آخر جھوٹ شرف انسانیت کی تصغیر جو ہے۔ جھوٹ کا ارتکاب، خود کو شیطان کے حوالے کردینے جیسا ہے۔اس پس منظر میں، وہی اخلاق و کردار با معنی ہیں جو جن و انس کے پروردگار نے اپنے بندوں کےلیے وضح کئے ہیں۔
ہم سب کو "خوش اخلاق” اور "بااخلاق” جیسے الفاظ کے مابین فرق کو بھی جاننا چاہیے اور اسی کے مطابق عمل کرنے کی سعئی کرتے رہنا چاہیے ۔ لوگوں کا خوش اخلاق ہی نہیں، بااخلاق ہو نا بھی ضروری ہے۔ میری نظر میں ‘با اخلاق’ ہونے کا مطلب ہے ان اخلاقیات کی اخلاص کے ساتھ پاسداری کرنا جن کی تعلیم اللہ تعالی نے قرآن مجید میں دی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت میں۔
اللہ تعالی نے کائنات کو ربانی اخلاقیات پر تخلیق کیا ہے، اور ساری کائنات اس کی پابند بھی ہے، مگر ‘امتحان’ کی وجہ سے حاصل اپنی آزادی کا غلط استعمال کرکے انسان انحراف بھی کرسکتا ہے۔ اللہ تعالی کو انسان سے اپنے ارادے اور اختیار کے ساتھ ہی ربانی اخلاقیات کی پاسداری مطلوب ہے۔
‘با اخلاق’ کے برعکس، صرف ‘خوش اخلاق’ ہونے کا مطلب ہے: اخلاص سے قطع نظر، اپنے اطوار کو دلکش بنانا۔ اس میں جھوٹ کو سچ کا جامہ پہنا کر پیش کرنا بھی شامل ہے ۔ کوئی نام لیے بغیر، پاک صاف نیت اور صرف ‘سبق’ حاصل کرنے کی غرض سے ایک حقیقی واقعہ پر مبنی میں اپنا ایک نایاب تجربہ یہاں پیش کرتا ہوں:
بظاہر بڑے دیندار قسم کے ایک بڑے کاروباری کے ساتھ مجھے کچھ دن کام کرنے کا اتفاق ہوا۔ ان کے حسن سلوک کی بدولت میں ہمیشہ ہی ان کو اپنا خیر خواہ تسلیم کر تا رہا ہوں، اور ہو سکتاہے کہ وہ بھی اس بات کو میرے لیے اپنی خیر خواہی ہی سمجھتے رہے ہوں، جس کا ذکر میں کرنے والا ہوں۔ آج وہ با حیات نہیں ہیں، اس لیے سب سے پہلے ان کی مغفرت اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام کےلیے اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں۔
ایک دن کسی سے سیدھی سچی بات کرتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے مجھے اپنے پاس بلا یا اور ایک باپ کی طرح، بہت ہی پیار سے سمجھانے لگے کہ "جوتا مخمل میں لپیٹ کر مارا جاتا ہے”۔ اختلاف کرتے ہوئے جب میں نے ان سے کہا کہ یہ تو ‘منافقت’ کا فعل ہوگا، تب انہوں نے مسکراتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ ” تم ابھی بچے ہو”!
افسوس، ہمارا معاشرہ اسی طرح کی اخلاقیات میں جی رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسی خوش اخلاقی اللہ تعالی کے یہاں قابل قبول نہیں، کیوں کہ وہ اپنے بندوں کے دلوں کی کیفیت سے واقف ہے اور وہ ان کے اعمال کے فیصلے ان کی "نیت” کی پاکیزگی کے تناظر میں کرتا ہے ۔ سادہ یا پر کیف، کسی بھی شکل میں بولا گیا جھوٹ نہ صرف آخرت کے پہلو سے مہلک ہے، بلکہ دنیا میں بھی الٹے نتائج پیدا کرنے والا ثابت ہوتا ہے۔ تجربات شاہد ہیں کہ جھوٹ دیر پا نہیں ہوتا اور جھوٹا شخص بہت جلد سب کے سامنے برہنہ بھی ہوجاتا ہے۔
میرے اپنے ذاتی تجربے کا ایک سچا واقعہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ دراصل، اس واقعہ کو بیان کرنے کے لیے ہی میں نے زیر نظر مضمون تصنیف کیا ہے۔ یہ بیان واقعہ اس پاکیزہ مقصد سے نقل کیا جارہا ہے کہ سبھی چھوٹے بڑے اس حقیقت کا ادراک کرسکیں کہ جھوٹی زندگی کتنی حقیر اور کتنی بے معنی ہوتی ہے، اور کس طرح ایک جھوٹے آدمی کو ہمیشہ کے لیے ذیل و رسوا کرکے چھوڑتی ہے، جب کہ اللہ تعالی کی نصرت سے ایک سچا آدمی ہمیشہ باعزت اور با وقار بنا رہتا ہے ۔
میں نے اپنی بینک کے شعبہ ‘بین الاقوامی بینک – کاری’ (International Banking) اور ‘غیر ملکی زرمبادلہ’ (Foreign Exchange) میں ایک لمبی مدت تک کام کیا۔ یہاں غیر معمولی شہرت ملی، گویا کہ مجھے درجہ اختصاص (specialisation) حاصل ہو گیا تھا، الحمدللہ!
مذکورہ قصہ میرے ایک قابل احترام، سینیر افسر سے متعلق ہے۔ فارن ایکسچینج کی نزاکتیں(delicacies of foreign exchange) سیکھنے میں مجھے ان کا بہت تعاون حاصل رہاہے۔ یہاں ان کا نام نہ لینا ہی انسانی اخلاقیات کی پاسداری ہوگا۔ ویسے بھی میرا مقصد اس واقعہ سے صرف "نصیحت” اخذ کرنا ہے تاکہ وہ لوگوں کے کام آئے، نہ کہ کسی کےلیے شرمندگی کا سامان مہیا کرنا۔
ڈاکٹر صاحب کے نام سے مشہور ایک بڑے ایکسپورٹ ہائوس( Export House) کے مالک ہماری بینک کے کھاتے دار تھے ۔ وہ ہمیشہ ہی اپنی فارن کرنسی(Foreign Currency) کی فروخت (sale) کے ریٹ( exchange rate) کو لے کر کافی حساس اور سنجیدہ رہتے تھے۔ اسی لیے، اکثر دوسری بینکوں سے بھی ریٹ دریافت کرکے موازنہ کیا کرتے تھے۔ بہت بڑے اکاونٹ ہولڈر (Account holder) ہونے کے باوجود، بینک ملازمین کے ساتھ ،عمومی طور پر ان کا رویہ دوستانہ ہوتا تھا۔ ساتھ ہی بینک افسران بھی ان کا کوئی بھی کام پھرتی کے ساتھ جلد مکمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ایسے خوش گوار پس منظر میں ایک دن ایسا ہوا کہ ان کو ریٹ کے متعلق کچھ شکایت پیدا ہوگئی، وہ بینک تشریف لے آئے۔ میرے سینیر اور میں دونوں ہی فارن ایکسچینج ڈپارٹمنٹ(Foreign Exchange Department) میں کام کرتے تھے۔ اتفاق سے میں چھٹی پر تھا۔ ناراض ہوتے ہوئے وہ شکایتی لہجہ میں میرے سینیر سے ملے۔ شکایت کو سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے کے بعد اس کو حل کرنے کی بجائے، میرے سینیر نے شیطانی شارٹ کٹ (short cut) کا سہارا لیا ۔ مجھے بینک میں نہ پاکر انہوں نے اطمینان کے ساتھ فاتحانہ اعلان کردیا کہ یہ غلطی "عبدالرحمٰن” نے کی ہے۔
جیساکہ مجھے بعد میں معلوم ہوا، ڈاکٹر صاحب کا سارا غصہ میری جانب مڑ گیا، بڑے آفس تک میں شکایت ہوگئی۔ کئی دن بعد جب میں اپنے آفس واپس آیا، مجھے محسوس ہوا کہ جیسے وہاں معمول سے ہٹ کر کچھ ہوا ہے، مگر کسی نے مجھے کچھ نہیں بتایا، میرے باس نے بھی نہیں۔ دو تین دن ایسا ہی رہا۔ اسی درمیان وہ ایکسپورٹر (exporter) صاحب بھی تشریف لائے، لیکن انہوں نے میرے سلام کا جواب تو دیا، مگر اپنے مزاج کے برعکس کوئی التفات نہیں دکھایا۔ ہاں، ساتھ ہی ایک عجوبہ بھی ہوا۔ وہ یہ کہ وہ غضب ناک نہیں ہوئے، جیسا کہ ماضی میں، اپنا نقصان ہونے کی صورت میں ان کو دیکھا گیا ہے۔
اس واقعہ میں اپنے صاف ستھرے بندے کے ساتھ اللہ تعالی کی نصرت کا میں نے کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ اللہ تعالی نے مجھے ان کے سب و شتم سے بے داغ بچا لیا۔ دریں اثناء، باس نے اپنے چیمبر میں بلا کر مجھے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کا آفس میرے گھر کے راستے میں پڑتا ہے، بینک سے جلدی فارغ ہو کر میں ان سے ملاقات کرنے کے بعد ہی گھر جائوں، انہیں مجھ سے کوئی شکایت ہوگئی ہے۔ شکایت کا لفظ سن کر مجھے تعجب ہوا، کیوں کہ، ماشاء اللہ، میرے کام کی تعریف کرنے والے کسٹمرس (customers) تو وہاں بہت تھے، شکایت والا کوئی نہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب خود بھی ہمیشہ میرے کام سے مطمئن پائےگئے تھے۔ اللہ کا نام لے کر میں ان کے آفس پہنچ گیا ۔ مجھے دیکھتے ہی وہ مجھ پر برس پڑے: "رحمٰن، تجھے نقصان کرنے کے لیے میں ہی ملا تھا؟”
"آپ تو ہماری بڑی پارٹی ہیں، میں نے تو کبھی کسی چھوٹے ایکپورٹر کا بھی نقصان نہیں ہونے دیا!” میں نے اعتماد کے ساتھ انہیں بتایا۔ مطمئن ہونے کے بعد تعجب کے ساتھ اپنے کاغذات مجھے دکھاتے ہوئے بولے کہ پھر یہ میرا نقصان کیسے ہوا؟ کاغذ دیکھتے ہی پوری تصویر میرے سامنے آگئی اور میں نے ان سے معلوم کیا کہ آپ سے کس نے کہا کہ یہ غلطی میں نے کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تمہارے سینیر نے۔ جب میں نے ان کو بتایا کہ یہ غلطی بھی میرے سینیر نے ہی کی ہے، وہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے، کیوں کہ سینیر نے ہی تو ان کو جھوٹی کہانی سنائی تھی۔ برانچ کے سربراہ(Head of the Branch) سے فون پر رابطہ کے ساتھ جب بینک میں موجود کاغذات کی پڑتال کی گئی تو تصدیق ہو گئی کہ ڈاکٹر صاحب کے مجرم میرے سینیر ہی تھے، نہ کہ عبدالرحمٰن۔
میں ڈاکٹر صاحب کی نظر میں پہلے سے زیادہ با وقار ہوگیا، اور، ماشاء اللہ، اپنی بینک کے بڑے افسروں کی نظروں میں بھی! اس کے بعد ڈاکٹر صاحب جب کبھی بھی بینک آئے، میرے سینیر کو سب کے سامنے شرمندہ کئے بغیر نہیں گئے۔ صرف ایک بات کہتے تھے: "اور لے لے رحمٰن کا نام!”
یقیناً،
جھوٹ کا تھوڑا مزا،
لمبی مدت تک سزا۔