وادیٔ کشمیر کا زیادہ تر روزگار سیاحت اور دستکاری صنعت پر منحصر ہے اور ان دستکاریوں میں نمدہ سازی، قالین بافی، شالبافی، پیپر ماشی اور لکڑی کی کندہ کاری قابل ذکر ہیں۔
ان پیشوں سے یہاں کی اکثریت وابستہ رہی ہے اور اپنا روزگار کماتے تھے۔ اس کے علاوہ یہاں کے لوگ اپنے اہلِ خانہ کو بھی ان کاموں کے گْن سکھانے میں فخر محسوس کررہے تھے اور یہ پیشے ہم تک نسل درنسل پہنچے ہیں یا یہ کہا جائے کہ یہ دستکاریاں ہمیں اپنے آباء و اجداد کی طرف سے وراثت میں ملی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان پیشوں کی وجہ سے کشمیر دنیا بھر میں مشہور ہے اور ان کاموں میں یہاں کے لوگ پیشہ ورانہ صلاحیت رکھتے تھے مگر نئی صنعتی ٹیکنالوجی سے ان کاموں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں کیونکہ مشینوں کے ذریعے نیا مال تیار کرکے ان سے وابستہ پیشہ ور افراد کے پیٹ میں چھرا گھونپا گیا ہے۔
لوگ انہی سے بنائے گئے مصنوعات کو ترجیح دیتے ہیں مگر آج بھی کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو مشینوں سے تیار کئے گئے مصنوعات کا استعمال نہیں کرتے ہیں کیونکہ ان مصنوعات میں اتنی خوبصورتی نہیں ہوتی ہے جتنی خوبصورتی ہاتھوں سے بنے مصنوعات میں ہوتی ہے۔
ان ہی دستکاریوں میں صدیوں پرانی اور جاذب نظر پیپر ماشی دستکاری کا لگ بھگ آج نام ہی نہیں ہے اور یہ دستکاری اب اپنی آخری لمحات گزار رہی ہے۔
یاد رہے پیپر ماشی دستکاری پندرہویں صدی میں اس وقت وارد کشمیر ہوئی جب کشمیر پر اس وقت کے بادشاہ بڈشاہ زین العابدین کا راج تھا اور ان دستکاریوں کا یہاں کے لوگوں نے کھلے دل سے خیر مقدم کیا تھا کیونکہ ان دستکاریوں نے کشمیر کے لوگوں کو خود کفیل بنایا تھا۔ پیپر ماشی دستکاری صنعت کا سہرا بھی بڈشاہ کو ہی جاتا ہے۔
اسی طرح یہاں کے لوگوں نے پیپر ماشی کو بھی ذریعہ معاش بنایا تھا اور یہ ایک ایسا وسیلہ روزگار تھا کہ خاندان میں رہ رہے سبھی چھوٹے، مرد و عورتیں اس کام سے واقف ہوکر ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا کر اپنا روزگار کماتے تھے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ سرکار کی عدم توجہی اور لوگوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے پیپر ماشی صنعت نظروں سے اوجھل ہورہی ہے اور اس صنعت پر اپنا گزر اوقات بسر کرنے والے پیشہ ورلوگ اب کسمپرسی کی زندگی جی رہے ہیں کیونکہ نہ ہی ان کو خام مال دستیاب ہورہا ہے اور نہ ہی سرکار کی طرف سے ان کی بازآبادکاری کیلئے مالی معاونت مل رہی ہے جس کی وجہ سے اب لوگ خاص کر نوجوان طبقہ اس کی طرف دھیان نہیں دے رہے ہیں۔
کشمیری پیپر ماشی کو دو مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے ،سخت زئی اور نقاشی سے۔ سخت زئی میں خام مال کو تیار کرکے کوئی شکل دی جاتی ہے مثلاً گلدان، سگریٹ کیس، قلمدان، کٹورے، جانور اور پرندے وغیرہ بنائے جاتے ہیں اور اسی پر نقاشی کرکے اس کو رنگ برنگے نقشوں جیسے پھولوں، پتوں، جانوروں وغیرہ سے سجا کر اس کو لائق ِ بازار بنایا جارہا ہے۔ اس میں روایتی اور علاقائی نقش نگاری کو ترجیح دی جاتی ہے۔
پیپر ماشی صنعت ایک ایسا ذریعہ معاش تھا کہ لوگ دن بھر کھیتی باڑی یا کسی اور جگہ کام کرکے رات کے وقت اپنے کنبہ میں بیٹھ کر آپس میں یہ کام انجام دیتے تھے ۔اس میں ان کے بال بچے بھی ہاتھ بٹاتے تھے اور بچے کھیلتے کھیلتے پیپر ماشی سیکھتے تھے اور اس سے ان کے گھر کا بھی گزارہ ہوتا تھا اور بچوں کو جوانی میں روزگار ڈھونڈنے میں دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔
ہمارے اسلاف نے ایسے فنون وہنر اور دستکاریاں ہمارے لئے تحفے کے طور پر رکھی تھیں کہ اگر ہم ان کی پیروی کرتے اور ان کی طرف توجہ دیتے تو یہاں کے لوگ ایک طرف خود عزت سے اپنا روزگار کماتے وہیں دوسری طرف دوسرے لوگوں کو بھی اپنے ہنر وفن سے بہرہ مند کرتے۔
یہی حال ہماری صدیوں سے چلی آرہی پیپر ماشی کا ہوا ۔نہ ہی سرکار نے اس طرف کبھی توجہ دی اور نہ ہی ہمارے نوجوان طبقہ نے اپنے اسلاف سے بطورِ تحفہ ملی اس صنعت کی کوئی قدر کی۔گورنمنٹ نے اس صنعت سے وابستہ لوگوں کی بازآبادکاری کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی اس صنعت سے وابستہ پیشہ وروں کے حق میں کم سود والے قرضے دینے کا کوئی انتظام کیا جس سے وہ اپنے اس ہنر کو زندہ رکھ سکتے تھے۔
اس صنعت سے وابستہ ایک فنکار نے آہ بھرے لہجے میں کہا کہ آج کل نہ ہی میٹیریل ملتا ہے اور نہ ہی اس کیلئے سرکار نے کوئی سکیم رکھی ہے، جب مال تیار ہوتا ہے تو خریدار نہیں ملتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے ہی حالات اس صنعت سے وابستہ باقی ہنرمندوں کے ہونگے۔
اس لئے ابھی بھی وقت ہے کہ سرکار اس طرف اپنی توجہ مبذول کرے اور نئے سرے سے ان لوگوں کی بازآباد کاری کیلئے ایسے اقدامات اٹھائے جن سے ان بیچاروں کو ایک طرف خام مال مہیا ہوسکے اور دوسری طرف خریداری کیلئے راہیں ہموار ہوں۔ ایسے میلوں کا انعقاد ہو جن میں ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوسکے تاکہ اس صنعت کی پھر سے آبیاری ہوسکے اور نوجوان نسل کی توجہ اس طرف مبذول کرنے کیلئے انہیں مالی امداد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ایسے قرضے فراہم کرے جن کا شرح سود نہ ہونے کے برابر ہو ۔اس سے یہاں لاکھوں بیروزگار نوجوانوں کو روزگار کا وسیلہ فراہم ہوسکے گا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ہنر بھی زندہ رہ سکے گا جس ہنر سے ہمارے اسلاف آباد ہوئے ہیں۔