دن جیسے جیسے گذر رہا ہے ملک کے حالات انتہائی پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں، بہت تیز رفتاری کے ساتھ بھارت فاشزم کی جانب بڑھ رہا ہے، ملک کا دستور اور اس کا سیکولر کردار بھی خطرے میں ہے، عملاً ہندو راشٹر اس ملک کو بنایا جاچکا ہے، اب صرف اعلان باقی ہے،
آر ایس ایس کا ہندو راشٹر کیسا ہوگا اب یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے،کھلے عام دھرم سنسد کے نام پر نفرت کا کاروبار جاری ہے اور اس پر کاروائی کے لئے ملک کی ساری ایجنسیاں بے بس ہیں، جب کوئی معاملہ مسلمانوں سے متعلق ہوتا ہے یا اسے مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے تب ملک کی ساری ایجنسیاں متحرک ہوجاتی ہیں، اور فوری طور پر کارروائی شروع ہوجاتی ہے، لیکن اسی ملک میں کھلے عام مسلمانوں کو قتل کرنے کا اعلان کیا جارہا ہے،
دھرم سنسد سبھا میں مہاتما گاندھی کو گندی گالیاں دی جاتی ہیں، ان کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو نمسکار کیا جاتا ہے، سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کو گولیاں مارنے کی بات کی جاتی ہے، اور یہ سب چیزیں وائرل بھی ہوجاتی ہیں لیکن اس کے باوجود ابھی تک کوئی کاروائی نہیں ہوئی، ایف آئی آر میں صرف چند لوگوں کے نام کا اندراج کیا گیا، اور بس، اس کے بعد ایک طویل خاموشی ہے، حیران کن سناٹا ہے، ایسا لگتا ہے کہ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو سانپ سونگھ گیا ہو، اور ملک میں کیا ہورہا ہے اس کی انھیں خبر نہیں۔
اب آپ سوچئے اگر تھوڑی دیر کے لئے کوئی مسلمان اس طرح کی بات کرتا،کوئی مسلم تنظیم اگر ایسا پروگرام کرتی تب بھی حکومت اور ایجنسیوں کا معاملہ ایسا ہی ہوتا؟ اتنے حساس معاملے پر اس طرح کی معنی خیز خاموشی کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟جبکہ اس معاملے پر کم ازکم عدالت کو نوٹس لینا چاہئے تھا اور سوموٹو کے ذریعے اپنے اختیارات کا استعمال کرنا چاہئے تھا، لیکن ملک بھر کے 76نامور وکلاء جن میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے سابق ججس بھی شامل ہیں،دس بارہ دن قبل چیف جسٹس آف انڈیا کو ایک درخواست لکھ کر کارروائی کی اپیل کی ہے لیکن ابھی تک چیف جسٹس اور سپریم کورٹ نے کوئی ایکشن نہیں لیا ہے،آخر کس چیز کا انتظار کیا جارہا ہے؟
ہندو دھرم سنسد میں مہاتما گاندھی کو گندی گالیاں دینا اور گوڈسے کو نمسکار کرنا اور پھر ان ساری باتوں پر مودی کی خاموشی کیا آپ کو لگتا نہیں ہے کہ گاندھی کے اس ملک کو اب اسکے قاتل گوڈ سے کا بنایا جارہا ہے، اور گوڈسے کا ملک بنانے کے لئے نفرت کی کھیتی ضروری ہے، مہاتما گاندھی کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کے خلاف حکمراں پارٹی کے کسی ایک رکن نے اب تک کوئی بیان نہیں دیا،کیا اس کے باوجود آپ کو لگتا ہے کہ ہمارا ملک بھارت محفوظ ہاتھوں میں ہے؟جی نہیں بالکل ہر اعتبار سے اب ہندوستان غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے، غلط لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار کی باگ ڈور دے دی گئی ہے، اور یہ لوگ ہندوستانی تاریخ کے سب سے ناکام لوگ، نا اہل حکومت اور انتہائی نکمے وزیراعظم ثابت ہوئے،ظاہر ہے ایسے لوگ اقتدار میں رہنے اور حکومت کی کرسی سنبھالنے کے ہرگز لائق نہیں، اس لئے جتنا جلد ہو ایسے لوگوں سے ملک کو نجات دلانا وقت کا اہم تقاضا ہے۔
مودی کے نئے بھارت اور نیوانڈیا میں نفرت،بے روزگاری اور مہنگائی عروج پر ہے ظاہر ہے یہ چیزیں ملک کو کھوکھلا اور کمزور ہی کریں گی طاقت ور نہیں بناسکتی، نفرت کا بازار تو اسی وقت سے گرم ہے جب 2014 میں بی جے پی اقتدار میں آئی تھی، یہ نفرت اور شدت پسندی کا سلسلہ ماب لنچنگ سے شروع ہوا جسے اب دھرم سنسد کی غنڈہ گردی نے عروج عطا کردیا، ہریدوار کے دھرم سنسد میں جس طرح مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر اگلا گیا، ان کے خلاف تشدد کے لئے اکثریتی طبقے کو اکسایا گیا،
اس کا اثر کل ہی دہلی میں بھی دیکھنے کو ملا،دہلی کی آرٹی سی بس میں سوار ایک مسلم نوجوان کو خاتون کنڈکٹر نے بس سے اس لئے اتاردیا کہ وہ اپنے ساتھ چکن قورمہ(سالن خریدکر) لے جارہا تھا، اس واقعہ کی ویڈیو وائرل ہوگئی، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ محمد عمران نامی نوجوان نے شیومندر حضرت نظام الدین علاقے سے 410 روٹ پر آرٹی سی بس میں سوار ہوا، بس میں چڑھتے ہی عمران سے خاتون کنڈکٹر نے پوچھا کہ تھیلی میں کیا ہے؟عمران نے بتایاکہ اس میں چکن قورمہ ہے اور وہ اسے گھر لے جارہا ہے، یہ سنتے ہی کنڈکٹر نے عمران کے ساتھ بدتمیزی کی اور پھر اسے بس سے باہر اتار دیا، عمران نے بتایا کہ جب میں نے وجہ پوچھی تو کنڈکٹر نے کہا کہ بس میں چکن نہیں جائے گا، میں نے ان سے پوچھا کہ ایسا کہاں لکھا ہے کہ بس میں پیک کیا ہوا پارسل کھانا نہیں لے جایا جاسکتا، عمران نے بتایاکہ خاتون کنڈکٹر اور بس ڈرائیور نے بس کو روکا، میرے ساتھ بدتمیزی کی اور زبردستی مجھے بس سے اتاردیا۔
اسی نفرت کے نتیجے میں بلی بائی ایپ بناکر اور اس میں مسلم خواتین کی تصاویر اپلوڈ کرکے سوشل میڈیا پر ہراج کیا جارہا ہے، جو مسلم خواتین کی کردارکشی کی مذموم کوشش ہے، اس ایپ میں شامل کی گئیں اکثر خواتین کا سی اے اے اور این آرسی کے خلاف احتجاج میں اہم رول رہا ہے، اس سے قبل بھی سلی ڈیل کے نام سے ایپ بناکر ایسی ہی گھناؤنی حرکت کی گئی تھی، یہ نفرت کی ایک جھلک ہے،یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہری دوار کی دھرم سنسد ہو، دہلی میں ہندو یووا واہنی کا پروگرام ہو یا پھر گرو دوارہ لکھپت صاحب سے مودی کا خطاب سب کا مقصد ایک ہی ہے، یعنی نفرت پھیلانا اور نفرت کی تشہیر کرنا-
یہ دراصل سنگھ پریوار اور ہندتوا کا ایجنڈا ہے، جس کی بنیاد مسلم مخالفت پر ہے، یہ نیوانڈیا ہے جہاں آئینی طور پر سیکولر ملک کا وزیراعظم کسی ہندو راجہ کی طرح ہندو مذہبی عمارتوں اور پراجیکٹس کا ہندو رسم و رواج اور پوجا پاٹ کے ذریعے افتتاح کرتا ہے، سیکولر ملک کا وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی ہندو مذہب اور تہذیب کو ہائی لائٹ کرتا ہے بلکہ ملک میں چل رہے ترقیاتی پروجیکٹس کو بھی قدیم ہندو علوم سے جوڑتا ہے اور ساتھ ہی بات بات میں مسلم حکمرانوں کو باہری حملہ آور اور ان کے دور حمکرانی کو دور غلامی کہہ کر ہندو مذہب و تہذیب کی رونمائی کو مسلم مخالفت کا تڑکا بھی دیتا ہے۔
اوپر کے ان سطور سے آپ اچھی طرح سمجھ گئے ہونگے کہ نفرت کا پرچار اور اس غلاظت کو پھیلانے والے کون لوگ ہیں؟ اور یہ سلسلہ کہاں سے چل رہا ہے؟ اب آئیے ذرا یہ دیکھتے ہیں کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح کیا ہے؟ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی(سی ایم آئی ای) نے اپنی ایک تازہ ترین رپورٹ ایک دو دن قبل جاری کی ہے، اس کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان کی شرح بے روزگاری دسمبر میں 4ماہ کی ریکارڈ سطح پہونچ گئی، دسمبر میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 7,9 فیصد ہوگئی ہے، جبکہ نومبر میں یہ 7فیصد تھی، دسمبر کی یہ شرح اگست میں 8,3 فیصد کے بعد سے سب سے زیادہ ہے، غور طلب ہےکہ مئی 2021 میں ہندوستان میں شرح بے روزگاری سب سے زیادہ درج کی گئی تھی،
سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی کے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ دسمبر میں شہری بے روزگاری شرح بڑھ کر 9,3 ہوگئی،سی ایم آئی ای کی ویب سائٹ پر شیئر کی گئی جانکاری کے مطابق اومیکرون کے معاملوں میں اضافہ کے بعد ملک میں معاشی سرگرمیاں اور صارفین کے جذبات متاثر ہوئے ہیں، ماہرین معاشیات کو تشویش ہے کہ اومیکرون گذشتہ سہ ماہی میں دیکھے گئے اقتصادی اصلاحات کے سدھار کو نقصان پہونچا سکتا ہے، ریاستوں کی بات کریں تو دسمبر میں سب سے زیادہ بے روزگاری کی شرح ہریانہ کی رہی، یہاں یہ 34,1 فیصد رہی ہے، اس کے بعد راجستھان میں 27,1 فیصد،جھارکھنڈ میں 17,3 فیصد،بہار میں 16فیصد،اور جموں کشمیر میں 15 فیصد رہی، راجدھانی دہلی کی بات کریں تو دسمبر میں یہاں بے روزگاری کی شرح 9,8 فیصد رہی،سی ایم آئی ای کے مطابق ہندوستانی معیشت کی صحت کو بے روزگاری کی شرح درست طریقے سے پیش کرتا ہے، ہر مہینے 15 سے زیادہ عمر کے لوگوں کا گھر گھر جاکر سروے کرتا ہے اور روزگار کے صورتحال کی جانکاری لیتا ہے، دسمبر میں بے روزگاری کی شرح 7,9فیصد رہنے کا مطلب یہ ہے کہ کام کرنے کو تیار ہر ایک ہزار ورکر میں سے 79 لوگوں کو کام نہیں مل پایا یعنی وہ روزگار کے لئے بھٹکتے رہے،اور ہاتھ پیر مارتے رہے لیکن انھیں روزگار کے حصول میں ناکامی ہی ہاتھ آئی” یہ ہے مودی کے نئے بھارت میں بے روزگاری کی حقیقت۔
مودی حکومت کا کہنا ہے کہ کورونا وباء نے دنیا بھر کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے، لیکن سچی بات یہ ہے کہ بھارت کی معیشت کے منہدم ہونے کا سلسلہ کورونا وباء سے قبل نوٹ بندی کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا، جسے کورونا وباء اور سرمایہ دار نواز حکومت کی معاشی پالیسیوں نے تیز کیا ہے اور جس کی وجہ سے ملک معاشی طور پر کھوکھلا ہورہا ہے۔
آگے چلئے تو ریکارڈ توڑ مہنگائی نے عوام کو بحرانی میں مبتلاء کردیا ہے،دو ماہ پورے ہوچکے ہیں،گھریلو سطح پر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کوئی کمی بیشی نہیں کی گئی، مرکزی حکومت کی جانب سے 4 نومبر کو پٹرول اور ڈیزل پر ایکسائز ڈیوٹی میں بالترتیب 5اور10 روپے کی تخفیف کے اعلان کے بعد قیمتوں میں نمایاں کمی آئی تھی، لیکن اس کے بعد سے اب تک کھانے پینے کی دیگر اشیاء،سبزی گوشت اور دال وغیرہ عوام کی پہونچ سے باہر ہوتی جارہی ہے، اور اب یکم جنوری سے بہت ساری چیزیں مہنگی کردی گئی ہے، نئے سال کے آغاز پر مودی نے ملک کے عوام کو مہنگائی، قیمتوں میں اضافہ اور بے روزگاری کا تحفہ دیا ہے، سال 2021 میں مہنگائی میں 100 تا 200 کا فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
گذشتہ سات سالوں کے دوران مودی حکومت نے ملک میں لوٹ مار کی ہے، پٹرول، ڈیزل، پکوان گیاس، پکوان تیل، دالیں، ترکاریاں، ملبوسات،کھانے پینے کی اشیاء، فٹ ویئر، مشروبات، اسٹیل،سیمنٹ،آٹو موبائیل اور کار وغیرہ کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں عام آدمی، مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے سے پریشان ہے، ملک کی معیشت، دیش کے 6بڑے دولت مندوں کے ہاتھوں میں آچکی ہے اور مودی ان دولت مندوں کی پوری مدد کررہے ہیں، انھیں مہنگائی سے عام آدمی کی حالت کا کوئی اندازہ نہیں ہے،کانگریس پارٹی کا الزام ہے کہ نریندر مودی روزانہ چار مرتبہ کپڑے بدلتے ہیں اور میک اپ میں مصروف رہتے ہیں،مودی نے سات سال کے دوران پانچ مرتبہ اپنے استعمال کی گاڑیاں تبدیل کی ہے-
ابھی چند دن قبل ہی مودی کے لئے 14کروڑ کی لاگت سے نئی قیمتی کار خریدی گئی ہے، مودی کے دور حکومت میں سب کا ساتھ سب کا وکاس تو نہیں ہوا، عام آدمی کا وناش ہی ہوا، لیکن سب کا ساتھ مودی کا وکاس ضرور ہوگیا، اگر کوئی ترقی ہوئی تو وہ یہ ہے کہ نفرت سر چڑھ کر بول رہی ہے،بے روزگاری اپنی تاریخی بلندی پر ہے، اور مہنگائی انتہائی عروج پر ، مودی حکومت نے مشہور اور فائدہ مند عوامی اداروں کو خانگی شعبے کے ہاتھوں فروخت کرکے دولت مندوں کو فائدہ پہونچایا، جن اداروں کو خانگی شعبے کے ہاتھوں فروخت کیا گیا ہے ان میں ریلوے، لائف انشورنس، بندرگاہیں، ایرپورٹس، پٹرول کمپنی بی پی سی ایل، آرڈیننس اور فیکٹریز وغیرہ شامل ہیں، ان اداروں میں جہاں لاکھوں ملازمین برسر روزگار تھے، انھیں پرائیویٹ ہاتھوں بیچنے کے بعد اب ان اداروں میں ملازمین کی تخفیف کی جارہی ہے،جس سے ملک بھر میں بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے، مودی کی حکمرانی میں مستقبل میں مزید حالات خراب ہونے والے ہیں، دیش خطرناک موڑ پر کھڑا ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ملک بارود کی ڈھیر پر ہے کب پھٹ جائے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
کانگریس پارٹی کے مطابق ملک میں مہنگائی کا دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے، نومبر 2021 میں ڈبلیو پی آئی 14,23 فیصد پر ہے،جوکہ 10 سال سے زیادہ کی بلند ترین سطح پر ہے، نئے سال میں اسکے اثرات مزید تیزی سے محسوس کئے جائیں گے،یہ ہے مودی کا نیا ہندوستان اور نیا بھارت جس کا اعلان انھوں نے 2014 میں کیا تھا، مودی نے یہ بھی کہاتھا کہ میں ایسا کام کروں گا جو70 سالوں میں نہیں ہوا اور کسی حکومت نے نہیں کیا، واقعی یہ بات سچ ہے کہ مودی نے جس طرح نفرت،بےروزگاری، اور مہنگائی وغیرہ کو عروج بخشا یہ کام کسی حکومت نے نہیں کیا، مودی نے اسے کردکھایا۔اس لئے کیا یہ سمجھا جانا چاہیے کہ اس طرح کی پالیسی اختیار کرکے اور الٹے سیدھے فیصلے کرکے بھارت کو وشو گرو بنایا جارہا ہے؟
(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)