Student: An extraordinary personality
حالات حاضرہ

طالب علم: ایک غیر معمولی شخصیت

اس حقیقت کا ادراک مشکل نہیں کہ بیک وقت ایک طالب علم معلم بھی ہوسکتا ہے اور ایک معلم طالب علم! علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں خود راقم الحروف کو اپنی کلاس کے کچھ اسٹوڈنٹس کو پڑھانے کا شرف حاصل رہا ہے ۔
یہاں زیر نظر مضمون کے تحت ‘طالب علم اور استاد، استاذ یا معلم’ کے مابین واقع امتیازی حیثیت کا مطالعہ کرنا ہمارا مقصود ہے۔ میرے خیال میں، اس سمت میں مزید وضاحت سے قبل موجودہ دور کے ایک معروف اسلامی عالم و معلم کا حوالہ درج کرنا نہایت موزوں رہے گا۔

واضح رہے کہ مذکورہ عالم کا حوالہ کسی مسلکی یا نظریاتی ہم آہنگی کی وجہ سے نہیں دیا جا رہاہے، بلکہ ان کی شخصیت کے ایک سبق آموز پہلو سے علمی استفادہ کرنے کی غرض سے ایسا کیاجانا ضروری ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی "حکمت و دانائی کی بات مومن کا گمشدہ سرمایہ ہے، جہاں بھی اس کو پائے وہی اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے” ( سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4169)۔

حقیقت واقعہ کے طور پر، ‘جاوید احمد غامدی’ عالم اسلام کا ایک قابل احترام نام ہے! وہ اسلامیات کے ایک بڑے عالم اور محقق ہیں، جنہوں نے قرآن اور دین اسلام کے موضوع پر بیش قیمتی علمی و تحقیقی کام کیا ہے۔ قرآن پاک کی ایک منفرد تفسیر کے علاوہ، قریب 700 صفحات کی صرف ایک جلد پر مشتمل "میزان” نام کی کتاب میں پورے کا پورا دین (اسلام) بیان کردینا ان کا خاص امتیاز ہے۔

غامدی صاحب کے تمام طلباء جنہیں وہ درس دیتے ہیں اور تمام متعلقین جو ان کے مختلف ادارے سنبھالتے ہیں اور علمی کاوشوں میں ان کی معاونت کرتے ہیں، سبھی ان کو "استاذ محترم” کہتے ہیں، جبکہ بذات خود وہ متفرق اجتماعات وغیرہ میں دین کا ایک "طالب علم” کے طور پر اپنا تعارف کراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

یہاں پر میری ساری بحث اس نقطہ پر مرکوز رہے گی کہ ایک عالم اور معلم ہونے کے باوجود، علامہ یا مولانا جیسے القاب سے منسوب کرنے کی بجائے، ان کے لفظ طالب علم سے خود کو متعارف کرانے میں کیا کوئی حکمت پوشیدہ ہے؟
یوں تو شیکسپیئر (Shakespeare ) نے فرمایا تھا کہ ” نام میں کیا رکھا ہے”
(What’s in a name)

مگر ہمارا مدعا اس سے مختلف ہے اور یہاں نام میں بہت کچھ رکھا ہے۔
آیئے، یہ دریافت کر نے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک معلم کی شخصیت کے مقابلہ میں ایک طالب علم کی شخصیت کو کیوں کر امتیازی درجہ حاصل رہ سکتا ہے!

ہمارے کیا، کسی بھی معاشرے میں ہر فرد اپنی زندگی جینے کے لئے کوئی نہ کوئی ھدف مقرر کرتا ہے، اور پھر اس کو حاصل کرنے کے لئے اپنا لائحہ عمل وضح کرتا ہے ۔ طالب علمی کے شروعاتی دور سے ہی یہ سلسلہ جاری ہوجاتا ہے ۔ کوئی گریجویٹ، کوئی پوسٹ گریجویٹ تو کوئی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کو اپنا ہدف بناتا ہے ۔ کسی کا خواب انجینئر، کسی کا خواب ڈاکٹر، کسی کا خواب ایک معلم بننا ہوتا ہے، جبکہ دوسرے بہت سارے افراد میدان قانون، میدان اقتصادیات و معاشیات اور ملک کی انتظامیہ کے میدان میں درجہ امتیاز حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ، کچھ لوگ علم کے مختلف شعبہ جات میں اختصاص حاصل کرنے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں، تو وہیں شہریوں کی ایک بڑی تعداد افواج کے مختلف شعبوں میں شمولیت حاصل کر ملک کی حفاظت کی نیت سے ملک کی سرحدوں پر اپنی ذمہ داری نبھانا پسند کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ سائنسداں بننے کی تمنا رکھتا ہے، جس کی رو سے قوانین فطرت کی دریافت میں حصہ لے کر، ملک و ملت کی بہبود سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر بڑے پیمانے پر نوع انسانی کی خدمت کا کام انجام دیتا ہے۔ غرضیکہ، اپنے اپنے فطری رجحانات، طاقت و توانائی اور اہلیت و لیاقت کے تناظر میں سبھی لوگ اپنا اپنا ھدف متعین کرتے ہیں ۔

اسی کے شانہ بشانہ، ہمارے معاشرے میں کامیاب زندگی کی ضمانت کے طور پر قبولیت حاصل کرچکے مختلف معیارات ہمارے مقصد حیات کو طے کرنے میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں، بڑے بڑے مناصب پر فائز ہونا، خوب دولت کمانا، بڑے بڑے محل و باغات تعمیر کرنا، خوب شہرت حاصل کرنا وغیرہ وغیرہ، زنگی کے بڑے نصب العین سمجھے جاتے ہیں۔ اپنے نصیب العین تک پہونچنے کے لئے انسان محنت و مشقت کی کسی بھی حد تک جانے میں گریز نہیں کر تا ہے۔

جائز طریقہ سے دولت کمانا، اپنی حس جمالیات کی تسکین کا سامان کرنا، آسائش کی زندگی بسر کرنا کبھی بھی معیوب نہیں ہوتا، بلکہ اسلام تو ان سب کوششوں کو اللہ تعالی کا فضل تلاش کرنے سے تعبیر کرتا ہے(قرآن: سورة الجمعة، آیت 10)۔

یہاں بنیادی بات یہ ہے کہ امتحان کے لئے بنائی گئی موجودہ دنیا میں مادی اشیاء کبھی بھی سکون و اطمینان کا ذریعہ نہیں بن سکتیں، کیونکہ یہ چیزیں صرف انسان کی ضرورت اور اس کی آزمائش کے لئے فراہم کی گئی ہیں۔ اس پس منظر میں، مادی سازوسامان کے حصول کو مقصد زندگی بنانا، الٹے نتائج پیدا کرنے والا (counterproductive) ثابت ہو سکتا ہے۔ افراط مال و زر انسان کو صراط مستقیم سے ہٹاکر ‘استکبار’ جیسے مہلک عذاب میں مبتلا کر سکتا ہے ۔ استکبار کے متعلق اسلامی تعلیمات کا خلاصہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ” اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل ہو سکتا ہے، مگر مستکبر جنت میں داخل نہیں ہوسکتا” (قرآن: سورة الأعراف، آیت 40 )۔

چونکہ مادی عیش و آسائش کا ھدف قابل حصول ہوتا ہے، اس لئے بیشتر افراد مضبوط ارادوں اور محنت و جاں فشانی کے دم پر، اپنی دولت-شہرت، بنگلہ-گاڑی اور سامان عیش و عشرت کی منزل پر جلد یا بدیر پہنچ ہی جاتے ہیں، مگر اپنی خواہشات کی منزل پر پہنچ کر انسان ایک غیر متوقع حادثہ کا شکار ہوتا ہے!

چاہی ہوئی ہر چیز مل جانے کے بعد اس کی نفسیات بدل جاتی ہے، اب اس کو لگنے لگتاہے کہ زندگی جیسے ختم ہوگئی ہے اور اب اس کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ ایسے ہی دولت مند لوگوں کے قصوں سے رسائل بھرے پڑے ہیں، جنہوں نے اس لئے خود کشی کرلی کہ ان کی اپنی دولت اور اپنی شہرت ہی انہیں ڈس نے لگی تھیں۔ جو لوازمات کبھی ان کی زنگی کا ھدف ہوتے تھے، وہ ان کے ڈپریشن کا سبب بن گئے۔

مادی ھدف کے حصول میں جینے والوں کو بہت جلد یہ تلخ تجربہ ہو جاتاہے کہ ان کی تمنائوں کی ندی کی روانی ختم ہوگئی ہے، اور وہ رکے ہوئے پانی کا ایک تنگ تالاب بن کر رہ گئی ہے۔ اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ رکا ہوا پانی بہت جلد سڑنے لگتا ہے اور مکدر ہو جانے کی وجہ سے کسی مصرف کا نہیں رہتا۔
رکے ہوئے پانی کے حوالہ سے مجھے اپنی زندگی کا ایک اہم واقعہ یاد آتا ہے۔ سبق آموز ہونے کی وجہ سے یہاں نقل کرنا مناسب رہیگا:

بہترین کارکردگی اور اہلیت کے باوجود مجھے قریب پانچ سال تک چیف منیجر کی حیثیت میں پروموشن نہیں ملا۔ سن 2014ء میں جس انٹرویو کے بعد چیف منیجر کے طور پر میرا تقرر ہوا وہ بہت دلچسپ ہے۔ متفرق قسم کی گفتگو کے درمیان، بہت ہی سنجیدہ اور پر اعتماد طریقہ سے میں نے انٹرویو بورڈ کے چیئرمین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، "سر، اتنا جان لیجئے کہ نو چینج، نو چیلنج. (no change, no challenge) اور یہ بھی کہا کہ رکا ہوا پانی بے کار ہو جاتاہے اور اس سے کسی طوفان کی امید نہیں کی جاسکتی۔”

اس خطاب کے ساتھ ہی بورڈ کا ماحول یکسر بدل گیا۔مجھے محسوس ہوا کہ میں جو پیغام ارسال کرنا چاہتا تھا وہ ہو گیا ہے۔ بورڈ کے سبھی ممبران نے سرگوشی کے انداز میں آپس میں بات کی۔ انٹرویو اس اطلاع پر ختم ہوا کہ ” وہ سب مجھے چیف منیجر بنانے پر متفق ہیں۔” چند دنوں کے بعد جب رزلٹ آیا تو مجھے دی گئی خبر درست پائی گئی، الحمدللہ!

مادی اہمیت کی چیزوں کو مقصد حیات تصور کرنے والے اشخاص کے نا مبارک انجام کے بر عکس، طالب علم یعنی اپنے سیکھنے کی روح کو زندہ رکھنے والا اور علم کے سلسلہ کو جاری رکھنے والا ایک شخص کشمکش سے بھری اس دنیا میں بھی سکون و اطمینان کی زندگی حاصل کر لیتا ہے۔ مدرسہ، اسکول، کالج، یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے اور نوجوان ہی طالب علم نہیں ہوتے، مدرسوں کے مدرس، قاری، مولوی، مفتی؛ یونیورسٹیوں کے لیکچرر، ریڈر، پروفیسر؛ بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز افسران؛ بڑے بڑے بزنس اور انڈسٹری چلانے والے سیٹھ اور ساہوکار؛ یہاں تک کہ بڑی بڑی سیاسی اور حکومتی شخصیات بھی طالب علم ہو سکتی ہیں اور طلب علم کے ساتھ اپنے لئے ایک باوقار زنگی تشکیل دے سکتی ہیں۔

علم حاصل کرنے کی تاکید اللہ تعالی کی طرف سے کی گئی ہے( قرآن: سورة العلق، آیت 1 )، شاید اسی لئے علم حاصل کرنا کسی کے لئے کبھی بھی اکتاہٹ و اداسی کا سبب نہیں رہا، بلکہ طالب علم کا علمی ہدف حصول کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتا رہتا ہے، اور وہ کسی بھی مرحلہ میں زندگی کے "بے کیف” ہونے کے تجربہ سے دوچار نہیں ہوتا، اور ہمیشہ تروتازہ بنا رہتا ہے۔ جیسا کہ سقراط ( Socrates ) کے نام سے مشہور ہے ــ "Smart people learn from everything and everyone ۔۔۔” یعنی ہوشیار لوگ ہر ایک چیز سے اور ہر ایک انسان سے سیکھتے ہیں ۔ طالب علم سے زیادہ ہوشیار اور کون ہو سکتا ہے؟ اس لئے ایک طالب علم ہر ایک چیز سے اور ہر ایک انسان سے سیکھتا ہے۔ ایک سچا طالب علم ہی اس مقولہ کو درست ثابت کرتا ہے کہ "گود سے گور تک علم حاصل کرو۔” علم کی طلب زندہ رکھنے والا ایک شخص استکبار کی جملہ نفسیاتی بیماریوں اور پیچیدگیوں سے بھی پاک رہتا ہے، کیونکہ وہ دنیا کی بے ثبات چیزوں کو اپنا مقصد زیست نہیں بناتا کہ اس کے حاصل ہونے پر اترانے لگے، اور شکران خدا وندی سے بھی محروم ہوجائے۔

کسی بھی میدان میں سرگرم جملہ عہدیدار، افسران، مدرس اور معلم وغیرہ استاد، استاذ اور معلم حضرات کے ساتھ بخوبی بریکٹ کئے جاسکتے ہیں۔ ایک طالب علم کی طرح زندگی بسر کرنے والے کو ہر روز نئے پن کی حلاوت محسوس ہوتی رہتی ہے، اس لئے اس کے کام سے ریٹائر ہو جانے کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ نوبل انعام یافتہ سائنسداں اس امر کی بہترین مثال ہیں کہ بڑی بڑی عمر تک اپنے علمی تجسس کو مطمئن کرنے کے لئے علمی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں، اور جوان بنے رہتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ "اپنے سیکھنے کی للک کو زندہ رکھئے اور دیر تک جوان رہئے”۔ ہمارے موجودہ معاشرہ کے تاثرات کے برعکس، علمی طلب میں سرگرداں افراد زندگی کے لوازمات سے بھی محروم نہیں رہتے ہیں ، ہاں، بس لوازمات ان کی زندگی کا ھدف نہیں ہوتے۔

علم والے ہی اللہ تعالی کے خاص ہوتےہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے کہ اللہ سے اس کے بندوں میں سے صرف وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ( قرآن: سورہ فاطر، آیت 28 )۔ مذکورہ آیت سے متاثر ہونے والے یقینن اپنے علم کو بڑھانے اور اس کو پاکیزہ بنائے رکھنے کی جدوجہد سے بےنیاز نہیں رہ سکتے ۔ وہ ‘رب ذدنى علما’ یعنی اے اللہ میرے علم کو بڑھادے( قرآن: سورہ طه، آیت 114) جیسی دعائوں سے مستقل طور پر وابستہ ہو جاتے ہیں۔ اسی قسم کے لوگ سچے ‘طالب علم’ کے زمرہ میں آتے ہیں ۔

شان و شوکت، عہدہ و مناصب اور دولت و ثروت جیسے ناپائیدار مقاصد انسان کے شایان شان نہیں، اسی لئے وہ اس کو سکون بھی نہیں دے سکتے۔ صرف اور صرف ‘معرفت الٰہی’ ہی وہ ہدف ہے جو ‘ہمیشہ اطمینان’ سے ہمکنار رکھتے ہو دائمی منزل سے متعارف کراتا ہے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر (دوات بن جائے) جسے سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں(لکھنے سے) ختم نہ ہونگی۔ بے شک اللہ زبردست اور حکیم ہے( سورہ لقمان، آیت 27)۔اللہ تعالی کی لا محدود معرفت حاصل کرنے والا ایک شخص کیونکر ایک معمولی شخصیت ہو سکتا ہے، دنیا میں موت آنے کے بعد بھی آخرت میں اس کی معرفت کا سفر جاری رہےگا۔
اے اللہ، تو مجھے اور میرے ہم عصر مسلمانوں کو اپنی معرفت عطا کر اور اپنے ھدایت یاب مومنین و صالحین کی صف میں شامل فرما۔ آمین!

عبدالرحمٰن
نئی دہلی (سابق چیف منیجر، الہ آباد بینک)