باغبانی شعبہ جموں و کشمیر کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس شعبے سے وابستہ ستر فیصد آبادی منسلک ہوکر اپنا روزگار حاصل کرتی ہیں۔ وہیں وادی کشمیر کے کاشتکاروں کو سیب کے پیڑ کو تیار کرنے میں برسوں گزر جاتے ہیں جس کے دوران اسے ایک طویل اور مشقت بھرے دور سے گزرنا پڑتا ہے جس کے بعد محنت کا پھل ملنے کی امید پیدا ہوتی ہے تاہم وادی کشمیر میں باغبانی شعبے کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ کووڈ لہر اور ایران سے موسم خزاں کے دوران پھلوں کی آمد کی وجہ سے کشمیری سیبوں کی مانگ اور قیمت میں کمی واقع ہوئی ہے۔
کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی مختلف منڈیوں میں گزشتہ دو مہینوں سے سیب اور دیگر میوہ کی قیمتیں مسلسل کم ہو رہی ہیں۔ فروٹ گروئورس اور مالکان باغات نے بتایا کہ عام طور پر نومبر اور دسمبر کے اختتام کے بعد سیب کے نرخ بڑھ جاتے ہیں لیکن امسال ریٹ کم ہونا شروع ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے جن فروٹ گروورس کی پیداوار ابھی تک منڈیوں تک نہیں پہنچی،جس وجہ سے وہ کافی پریشان ہیں۔
میوہ بیوپاریوں او رمالکان باغات نے کہا کہ انہوں نے ابھی تک بہت کم تعداد میں سیب کے ڈبے بیرون منڈیوں میں بھیجے ہیں کیونکہ وہ قیمت بڑھنے کا انتظار کر رہے تھے لیکن سیب کی قیمتیں بڑھنے کے بجائے ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہو رہی ہیں۔
ادھر ضلع شوپیان کے تاجر اور کاشتکار بھی ایرانی سیبوں کی درآمد سے کافی پریشان ہیں۔ سیب تاجران نے بتایا بیرون ممالک ایران اور ترکی سے ملک ہندوستان میں کم ٹیکس پر سیب آرہے ہیں جسکی وجہ سے یہاں کے مال کی قیمتیں کم ہوگئی ہے اور قریب دو کروڑ سیب کی پیٹیوں کی فروخت ابھی باقی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قریب دو کروڑ سیب پیٹیاں ابھی یا تو کاشتکاروں کے گھروں میں ہیں یا کولڈ اسٹوریج اور منڈیوں میں ہیں۔
شوپیان ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک میوہ تاجر نے بتایا کہ گزشتہ ڈیڑھ مہینے سے کشمیری سیب کی قیمت فی پیٹی 500سے400 تک کم ہو ئی ہے اور وہ مالکان باغ ،جن کی سب سے زیادہ پیداوار کشمیر میں ہی ہے ،وہ بہت پریشان ہیں انہوں نے مزید بتایا کہ نرخوں میں کمی کی وجوہات ایران سے سیب کی درآمد ہے جو روزانہ کی بنیاد پر دہلی پہنچ رہے ہیں۔
کاشتکاروں نے بتایا کہ حکومت کاشتکاروں کے مسائل اور اُن کی جانب سے پیش کی گئی مانگوں کا بغور جائزہ لیکر انہیں فوری طور پورا کیا جائے اورسیب کی پیداوار کرنے والوں کو ایک مؤثر مارکیٹنگ پلیٹ فارم مہیا کرایا جائیں تاکہ مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوسکے۔ انہوں نے بتایا کہ سیب کے لیے محنت کی قیمتوں کو یقینی بنایا جائےجس سے جموں و کشمیر میں کسانوں کی مجموعی آمدنی میں اضافہ ہوگا اور بے روزگاری دور ہوگی اور کشمیری تمام شعبوں میں ترقی و بلندی سے ہمکنار ہوں گے۔