ملک میں لاکھوں بچے غذائی قلت کا شکار، ذمہ دار کون؟
حالات حاضرہ

ملک میں لاکھوں بچے غذائی قلت کا شکار، ذمہ دار کون؟

گذشتہ چند سالوں سے اپنا ملک ہندوستان انتہائی عجیب بحران سے گذر رہا رہا ہے، یہ بحران اور چلینجس یک طرفہ نہیں بلکہ چو طرفہ ہے، چاروں سمت مسائل کا انبار ہے، ہرآنے والا دن اس کی مشکلات اور مسائل میں اضافہ کررہا ہے، اور حکومت کی جانب سے ان مسائل ومشکلات اور بحران سے نکلنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جارہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ جان بوجھ کر ہندوستان کو مسائل کے دلدل میں دھکیلا جارہا ہے، لیکن ہرصورت میں نقصان ملک کا اور یہاں کی غریب عوام کا ہورہا ہے۔

جب سے عوام دشمن حکومت، اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے تب سے اس ملک میں غریبوں، مزدوروں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں تک کا جینا اور زندگی گذارنا مشکل ہوتا جارہا ہے، حکومت کی کرسی پر بیٹھے ہوئے لوگ عیش وعشرت میں مست ہیں،نہ انھیں جمہوریت اور جمہوری نظام سے مطلب ہے اور نہ ہی دستور وآئین کے تحفظ سے، نہ انھیں ملک کی خواتین کی فکر ہے اور نہ نئی نسل کی، نہ انھیں ملک کے ضعیف و کمزور لوگوں سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی عام لوگوں کی پریشانی سے، انھیں تو ہرحال میں اپنا اقتدار اور اپنی کرسی محبوب ہے، پھر یہ لوگ عوام کی پریشانیوں کو کیونکر محسوس کریں؟

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ جب سے نااہلوں نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہے اس وقت سے آج تک ملک بے شمار مسائل کا شکار ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے کہ پہلے ملک میں مسائل نہیں تھے بلکہ پہلے بھی تھے لیکن آج اس میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے آنے والے دنوں میں ان مسائل میں مزید اضافہ ہوگا، پھر ایسے میں اسکاحل کیا ہے؟ یہ آپ کو سوچنا ہوگا،جب تک عوام دشمن طاقتیں اقتدار پر قابض رہیں گی تب تک ملک کا کچھ بھی بھلا نہیں ہوسکتا، ملک مزید کمزور ہوگا، لوگوں کی بے چینی بڑھے گی، یہ ہمیں سمجھنا ہوگا،ملک میں ایک عجیب و غریب بحرانی کیفیت پائی جارہی ہے، ہر طرف افراتفری کا ماحول ہے،ملک کے باشندے گھٹن محسوس کررہےہیں، دن جیسے جیسے گذر رہا ہے اس گھٹن میں مزید اضافہ ہورہا ہے، نہ ملک کی سرحد محفوظ ہے، نہ عوامی زندگی محفوظ،مہنگائی،بے روزگاری، غریبی، بھوک مری،کمزور طبی انفراسٹرکچر کے علاوہ بے شمار مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔

سطح غربت سے نیچے زندگی گذارنے والوں کی شرح میں گذشتہ چار برسوں کے دوران مسلسل اور تشویشناک حدتک اضافہ ہواہے،آخر ان سب چیزوں کا ذمہ دار کون ہے؟ حکومت کے پاس ان جیسے سوالات کے کوئی جواب نہیں ہیں،اسی لئے سڑک سے لیکر پارلیمنٹ تک جوکچھ ہورہا ہے یہ سب حکومت اپنی ناکامی اور نااہلی چھپانے کےلئے کررہی ہے،ایوان میں جسطرح کی دھینگا مستی ہورہی ہے اور جس طریقے سے جمہوری اصولوں کو پیروں تلے روندا جارہا ہے یہ سب کوئی اچھی بات نہیں ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک ایک غلط رخ پر جارہا ہے، پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس جاری ہے 29نومبر کو اجلاس شروع ہوتے ہی ایوان کی کارروائی ملتوی کردی گئی،12 اراکین پارلیمنٹ جو اپوزیشن سے تعلق رکھتے ہیں انھیں من مانی طریقے سے پورے سیشن کے لئے معطل کردیا گیا، اپوزیشن پارٹیاں حکومت سے سوال کرنا چاہتی ہیں اور اس کا جواب چاہتی ہیں، لیکن انھیں سوال کرنے اور حکومت کی ناکامیوں کی نشاندہی سے روکا جارہا ہے، ایسے میں کون سوال سنے گا اور اس کا جواب کون دےگا؟

سوال یہ بھی ہے کہ آخر حکومت کے لوگ سوالات سے کیوں بچناچاہتے ہیں؟ پارلیمنٹ جسے جمہوریت کا مندر کہا جاتا ہے، جہاں قانون سازی ہوتی ہے وہاں سوال وجواب اور بحث ومباحثے نہیں ہونگے تو کہاں ہونگے؟ پھر حکومت آخر بحث ومباحثے کے بغیر کیوں قانون پاس کررہی ہے؟ کیا صرف زبردستی قانون بناکر عوام کے سر تھوپ دینا ہی حکومت کا کام رہ گیا ہے؟ لاک ڈاؤن کے دوران جس طریقے سے ملک کے غریبوں اور مزدوروں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا اس واقعے نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا، اپنے بھارت میں ان دنوں غذائی قلت عروج پر ہے، عالمی فاقہ کشی کے اعداد و شمار برائے 2021 کے مطابق، ہندوستان جو 2020میں 94 مقام پر تھا، بڑی تیزی سے تجاوز کرتے ہوئے 101نمبر پر پہونچ گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پڑوسی ملک پاکستان، بنگلہ دیش، اور نیپال بھی ہم سے اچھی حالت میں ہے، اس معاملے میں ان چھوٹے ممالک کا موقف بھارت سے بہت بہتر ہے، دنیا کے سو ممالک جہاں فاقہ کشی کی انتہائی تشویشناک صورتحال ہے،ان ممالک کی صف میں اب ہمارا ملک بھارت بھی 101 نمبر پر کھڑا ہے، جبکہ ایک سال قبل یعنی 2020 میں ہندوستان 94 نمبر پر تھا، اب اس کا ذمہ دار کون ہے؟

کیا ہے اپنے ملک کی تازہ صورتحال؟ اور کس طرح ملک کی مختلف ریاستوں میں غذائی بحران ہے،لاکھوں بچے غذا نہ ملنے سے ان کی زندگی خطرے میں ہے، آئیے یہ جاننے کے لئے ایک سرکاری رپورٹ دیکھتے ہیں کیا ہے اس رپورٹ میں ؟ ملاحظہ کیجئے” سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں اس وقت 33لاکھ سے زیادہ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، ان میں آدھے سے زیادہ یعنی 17,7لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، شدید طور پر غذائی قلت کے شکار بچے سب سے زیادہ مہاراشٹر، بہار اور گجرات میں ہیں، اس بات کی جانکاری وزارت بہبود خواتین واطفال نے ایک آرٹی آئی کے جواب میں دی ہے، وزارت نے نیوز ایجنسی،پی ٹی آئی کے ذریعے ایک آرٹی آئی کے جواب میں کہا کہ ملک میں کل 33لاکھ 23ہزار 322بچے غذائی قلت کے شکار ہیں، وزارت کا اندازہ ہے کہ کورونا وباء سے غریب سے غریب لوگوں کو صحت اور غذائی قلت کے مزید بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزارت نے کہاکہ 14اکٹوبر 2021تک ہندوستان میں 17,76لاکھ بچے شدید غذائی قلت اور15,46لاکھ بچے کم غذائی قلت کے شکار تھے، اگرچہ یہ اعداد و شمار اپنے آپ میں تشویشناک ہیں، لیکن گذشتہ نومبر کے اعداد و شمار سے موازنہ کریں تو یہ اور بھی زیادہ خطرناک ہوجاتے ہیں۔

نومبر 2020اور اکٹوبر 2021 کے درمیان ایس اے ایم یعنی کم غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد میں 91فیصد اضافہ درج کیا گیا ہے، غذائی قلت کے حوالے سے آرٹی آئی کے جواب کے مطابق مہاراشٹر میں سب سے زیادہ یعنی 6,16لاکھ بچے غذائی قلت کے شکار ہیں،دوسرے نمبر پر بہار ہے،جہاں 4لاکھ 75ہزار 824بچے غذائی قلت کے شکار ہیں،تیسرے نمبر پر گجرات ہے،جہاں غذائی قلت کے شکار کل بچوں کی تعداد 3لاکھ 20ہزار ہے،اور اگر دیگر ریاستوں کی بات کریں تو آندھرا پردیش میں 2لاکھ 67ہزار 228بچے غذائی قلت کے شکار ہیں، اترپردیش میں 1,86لاکھ،تمل ناڈو میں 1,78لاکھ،آسام میں 1,76لاکھ اورتلنگانہ میں 1,52لاکھ 524بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے، بچوں کے تغزیہ کی کمی کے معاملے میں نئی دہلی بھی پیچھے نہیں ہے، قومی راجدھانی میں 1,17لاکھ بچے غذائی قلت کے شکار ہیں۔

واضح رہے کہ 2011 کی مردم شماری کے بعد ملک میں 46کروڑ سے زیادہ بچے ہیں” یہ ہے ایک سرکاری ادارے کی حیرت انگیز رپورٹ، اب آپ اس رپورٹ کو بار بار پڑھئے اور فیصلہ کیجئے کہ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا حکومت نے گذشتہ سات سالوں میں اس سنگین بحران سے نمٹنے اور اس کے حل کے لئے کوئی قدم اٹھایا؟ آخر یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ بے حس اور بےشرم حکومت اسطرح کے مسائل کے حل کے لئے کب بیدار ہوگی؟ بڑے بڑے اسٹیج سے نفرت اور جھوٹ پھیلانے والے لوگ، اس طرح کے مسائل پر کب تک مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے رہیں گے؟ ملک کا گودی اور بکاؤ میڈیا کب حکومت کو اس جانب توجہ دلائےگا؟ اوپر کی یہ رپورٹ جس میں 34ریاستوں اور مرکزی زیرانتظام علاقوں کے جملہ 33,23,322لاکھ بچوں کے اعدادوشمار جمع کئے گئے ہیں،یہ تعداد انتہائی صدمہ انگیز اور حیرت ناک ہے۔

ان اعداد وشمار پر ردعمل ظاہر کرتےہوئے تنظیم سی آر وائی کی چیف اگزیکٹیو آفیسر پوجا مروہا نے بتایاکہ کووڈ وباء کا اثر تمام سماجی ومعاشی زمروں کے افراد پر مرتب ہوا ہے، پی ٹی آئی کو انھوں نے بتایا کہ اسکولوں کی طویل مسدودی کے دوران آئی سی ڈی ایس اور مڈ ڈے میل جیسی خدمات میں بے قاعدگی پیدا ہوگئی تھی، اس سے بچوں پر شدید اثر مرتب ہوا، کیونکہ بچے زیادہ تر انھیں خدمات پرانحصار کرتے تھے، اپولو ہاسپٹل گروپ کے سینئر ماہر امراض اطفال انوپم سبل نے بتایا کہ یہ انتہائی اہم بات ہے کہ بچوں میں تغذیہ کی کمی کا جلد پتہ چلایاجائے اور حالت مزید بگڑنے سے بچانے کےلئے مناسب علاج ومعالجہ کی جانب توجہ دی جائے، تغذیہ کی کمی کے شکار بچوں کو انفیکشن(زہریلے اثرات)کا زیادہ جوکھم رہتا ہے اور ایسے بچوں میں کام کرنے کی صلاحیت کی کمی بھی پائی جاتی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ تغذیہ کی کمی کا انسداد کرنے حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کومناسب قوت بخش غذائیں فراہم کی جائیں،آپ کے اردگرد اگر اسطرح کی صورتحال ہے تو ان میں سے غریب ویتیم بچوں کی نگرانی اور دیکھ ریکھ کیجئے،ان کی زندگی کو یقینی بنا ئیے، اگر اللہ نے آپ کو استطاعت دی ہے تو ایسے بچوں کے سروں پر ضرور ہاتھ رکھئے، ان کی تعلیم وتربیت کا بہتر انتظام کیجئے، یہ بھی صدقہ جاریہ ہےاور سب سے بڑھ کر یہ انسانیت کے سب سے بڑے اور سچے مسیحا، پیغمبر انقلاب رحمت عالم ﷺ کی مبارک سنت اور آپ کا محبوب عمل بھی ہے، اسی لئے ایک حدیث میں آپﷺ نے امت کو تعلیم اورخوشخبری سنائی کہ”میں اور یتیم بچوں کی کفالت کرنے والا جنت میں دو انگلیوں کی طرح ایک ساتھ ہونگے”کیاآپ اس سنت پر عمل کرنے اور اس خوشخبری پر لبیک کہنے کے لئے تیار ہیں؟

حکومت تو اندھی، بہری ہے ان سے یہ امیدکرنا کہ یہ لوگوں کے جان ومال کی حفاظت کریں گے فضول ہے،بےحس حکومت کا رویہ انتہائی شرمناک ہے، کسانوں کو معاوضہ دینے کے مطالبے حکومت کا یہ کہنا کہ ہمارے پاس شہید کسانوں کا کوئی ڈیٹا نہیں، اس لئے انھیں معاوضے کا سوال ہی نہیں، لاک ڈاؤن سےمرنے والوں کے بارے میں بھی حکومت نے کچھ یہی باتیں کہی تھی،ان باتوں سے آپ اندازہ لگائیے کہ حکومت آپ کے بارے میں کتنی فکرمند ہے،
اس لئے نظر دوڑائیے اپنے اطراف کا جائزہ لیجئے اور اپنے حصے کا چراغ روشن کیجئے، یہی انسانیت کا تقاضا ہے۔