اولاد کی تربیت میں والدین کے قول وفعل اور کردار کا بنیادی اثر ہوتا ہے۔ لہذا اپنے کردار کا خصوصی خیال رکھے، ایک مخلص اور عقل مند والدین وہ ہی ہیں جو بچوں کی اصلاح کے لئے پہلے اپنے کردار کو درست کرتے ہیں پھر اپنی اولاد اور پھر معاشرہ کے کردار کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہم آج شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے بچے ہمارا کہنا نہیں مانتے، بدتمیزی کرتے ہیں ، زبان چلاتے ہیں، آپس میں پیار محبت نہیں۔ بڑوں کی عزت نہیں۔ کھانے میں نخرے کرتے ہیں۔۔۔ہمارے زمانے میں ماں ایک چیز پکاتی تھی تو چھ بچے چپ کرکے رب کا شکر کرکے کھاتے تھے۔ آج ماں چھ چیزیں پکا کر ایک بچے کے پیچھے بھاگتی پھرتی ہے۔
کبھی آپ نے سوچا کیوں؟ آج کے بچے اتنی جلدی بور کیوں ہو جاتے ہیں ؟ ہم نے تو کبھی نہیں کہا تھا کہ ہم بور ہو رہے ہیں؟ کیا ہم تمیز دار بچے تھے یا ہمارے والدین کی تربیت اچھی تھی؟
سوچیں ۔۔۔
کیا ہمارے والدین ہمارے پیدا ہوتے ہی ہمارے ہاتھوں میں موبائل فون پکڑا دیا کرتے تھے ؟ یا وہ بھی ہر وقت موبائل ہاتھوں میں تھامے موبائل زومبی بنے رہتے تھے؟
کیا وہ ٹی وی کو ہماری بےبی سٹنگ کے لیے استعمال کرتے تھے؟ کیا وہ ہمیں ٹی وی کے آگے بیٹھ کر کھانا کھلاتے تھے؟
ذرا کل سے بچوں کا سکرین ٹائم تو نوٹ کریں؟ ٹی وی ، لیپ ٹاپ، موبائل، گیمز سب اس میں شامل ہے. آج کے بچےکم از کم اوسطاً 55 گھنٹے سکرین ٹائم استعمال کرتے ہیں۔ کیا اس سے آدھا وقت بھی ہم نے بچوں کی اسلامی تربیت پر بھی لگایا ہے؟
کیا ہم ماں باپ, تربیت کی ذمہ داری ایک دوسرے پر یا سکول پر ڈال کر خود فیس بک ، ٹک ٹاک اور واٹس ایپ میں مصروف رہتے ہیں؟
اگر ہاں تو۔ پھر تو ہمیں شکایت نہیں کرنا چاہئے ، سارا قصور تو ہمارا اپنا ہے ۔۔۔
ہمارے بچے بدتمیز ہورہے ہیں!!!
اس لئے کہ۔ وہ یہ سب غصہ، بدتمیزی، ہائپر ایکٹیویٹی، بد زبانی ہم سے اور گیمز، ٹی وی اور کارٹونز سے حاصل کرتے ہیں جو چوبیس گھنٹے ہم انہیں خود مہیا کرتے ہیں، ان کی نظر کے مسائل، دماغی مسائل، جسمانی اور معاشرتی مسائل، ان سب کا ذمہ دار ہمیں کس کو ٹہرانا چاہیے؟ ان بچوں کی کری ایٹویٹی کیوں ختم ہوتی جا رہی ہے؟
انھیں اعلی کرداری ، ادب و آداب ، اچھے اخلاق سے دور دور کا واسطہ نہیں۔۔۔ کیوں؟
آگے پڑھئے اور فیصلہ کیجیے۔۔۔
کیا ہم نے کبھی اپنے بچوں کو اعلی کردار لوگوں کی واقعات سنائے ہیں ؟کبھی بتایا کہ ہمارے مسلم ہیرو کون تھے ؟ ہمیں کس کو اپنا آئیڈیل بنانا اور کاپی کرنا چاہئے؟
ہماری ننھی فاطمہ مٹک مٹک کر بدتمیزی سے بات کرے اور ٹر ٹر جواب دے، اداکاروں کو کاپی کرئے تو ہم خوشی سے نہال ہو کر اس کا یو ٹیوب چینل بنا دیتے ہیں۔ ہمارا کیوٹ سا احمد اوے اوے کرکے چلائے اور غصہ کرئے تو ہم اس کو ٹی وی پر لا کر بٹھا دیتے ہیں اور شہ دے دے کر مزید بد تمیزی پر اکساتے ہیں۔
یہ تو ہمارا معاشرتی معیارہے۔۔۔
یہ ہمارے بچے جو سکرین پر سارا دن دیکھیں گے وہی کریں گے نا۔۔۔۔
ہمارے بچے یوٹیوب زومبی کیوں بنتے جا رہے ہیں؟
کیا ہم نے کبھی رات بچوں کو سلاتے وقت اپنے نبی پاک ﷺ کی زندگی کے واقعات سنائے ہیں؟
کیا ہم نے کبھی بتایا کہ قرآن کی فلاں آیت کیوں اور کیسے نازل ہوئی؟ اس کے پیچھے کیا کہانی تھی؟
کبھی نبیوں کے قصے بتائے؟
کبھی بتایا کہ حضرت ایوب نے کن حالات میں ہمت سےصبر کیا تھا؟
حضرت یوسف نے کیسے فراست اور یقین سے رب کا ہاتھ تھامے رکھا؟
حضرت ابراھیم علیہ السلام کیوں رب کے فیورٹ فرینڈ تھے ؟ اور کیوں اتنی قربانیاں دے کر بھی کبھی کوئی شکوہ نہ کیا؟
حضرت یونس کیسے مچھلی کے پیٹ سے نکلے تھے؟
قوم لوط کس جرم کی پاداش میں اتنے عظیم عذاب کی حقدار ٹہری؟
حضرت نوح کی 900سالہ ثابت قدمی کا کیا نتیجہ نکلا تھا؟
حضرت آسیہ کتنے پکے ایمان والی تھیں اور اسکا انھیں کیا صلہ ملا؟
اللہ حضرت مریم کی پاکیزگی کی کیوں مثالیں دیتا ہے؟
دنیا جہان کی کتابیں تو ہمارے بچوں کے بک شیلف میں سجی ہیں مگر کس کس کےبچوں نے پوری قصص الانبیاء پڑھی ہوئی ہے؟
ہم بچوں کے نام تو شوق سے فاطمہ، ابراھیم، موسی، بلال، مریم، خدیجہ اور اسماعیل رکھ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارا فرض پورا ہو گیا اب ہمارے بچے خود بخود نیک بن جائیں گے مگر
یہ بچے ہمارے لیے کیسے صدقہ جاریہ بنیں گے ،کبھی قاری کے حوالے کرنے کے بجائے ہم نے خود ان کو قرآن پڑھانے کی کوشش کی ہے؟ قرآن کا ترجمہ پڑھایا ہے؟ بتایا ہے کہ اللہ اپنی کتاب میں کہتا کیا ہے؟
ہمارے بچوں میں کردار کی وہ اعلیٰ خوبیاں کیسے پیدا ہوں جو ہمارے جلیل القدر صحابہ، اولیاء اور انبیاء میں تھیں؟
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نرم دلی، سخاوت، وفا شعاری اور وفاداری،
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اعلی کرداری اور عدل وانصاف ،
عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا شرم و حیا ، ایثاراور غناء
علی رضی اللہ عنہ کی جرات ، رشد اور فراست
سیف اللہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جیسے جری اور زیرک جرنیل کی دلیری
حضرت خدیجہ کی وفاداری اور خدمت گزاری
حضرت بلال کی قربانیاں اور ثابت قدمی
بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کا اپنے والد کے لئے پیار اور ادب و احترام
محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کی جرات مندی اور بہادری
حضرت انس اور حضرت عائشہ کی علم سے محبت
کتنے ہی ان گنت نام اور ہیں۔۔۔۔۔
یہی مسلم ہیروز ہیں جن کی سچی داستانیں کردار و اخلاق کی بلندیوں پر لے کر جاتی ہیں۔۔۔۔۔نہ کہ نیٹ فلیکس ،یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر گزارا وقت اور آوارہ گردیاں۔ اس سے پہلے کہ سوشل میڈیا اور موبائل فون کا یہ فتنہ ہماری نسلوں کو لے ڈوبے ابھی بھی وقت ہے۔ اس سے مکمل نجات تو شاید اب ممکن نہیں مگراس سوشل میڈیا کا مثبت استعمال خود بھی کریں اور بچوں سے بھی کروائیں۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شکوہ کرنے سے پہلے خود ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم نے اپنے بچوں کو اللہ تعالے’ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم اور سنت سے پیار سکھانے میں کتنی محنت کی ہے؟
ہم اپنے بچوں کو روز کتنا کوالٹی ٹائم دیتے ہیں؟
بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کے لیے کیا کرتے ہیں؟
اور انہیں اخلاق ومحبت کے کتنے درس پڑھاتے ہیں؟
کچھ دیر کو اکیلے بیٹھئے اور سوچیے اور پھر اپنے شریک حیات سے ڈسکس کر کے پلان کیجیے،
(رکیے۔۔۔ ایک دوسرے پر الزام مت دھریے ، آپ دونوں کو مل کر ایک ٹیم بن کر کام کرنا ہے ۔۔۔)
مگر بچوں کو بدلنے سے پہلے پہلے خود کو بدلیے، کہ ہم بدلے تو بچوں کو بدل پائیں گے۔
اچھے بچوں کے لیے اچھے ماں باپ بننا ضروری ہے۔۔۔
اور اب تو بہترین وقت ہے، اور اپنے بچوں پر بھرپور توجہ دیں۔ میڈیا کے اس خوفناک جن کو اپنے بچوں کو اغوا نہ کرنے دیں۔ ان کو قدرتی مناظر انجوائے کرنے دیں۔ درختوں پر چڑھنے دیں۔ ٹیچر ٹیچر اور گھر گھر کھیلنے دیں۔ بچیوں کو اپنے ساتھ گھر داری سکھائیں اور بیٹوں کو گھر کی دیگر ذمہ داریاں تھمائیں۔
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ رب نے تو ہمیں الحمدللہ صحیح سلامت اولاد دی تھی مگر ہم انھیں معذور کرتے جا رہے ہیں۔ ہاتھوں میں موبائل ، نظریں ٹی وی پر اور دماغ گیم میں۔ ان میں سوچنے سمجھنے ، پرابلم سالونگ
کرنے اور اٹھ کر جسمانی کام کرنے کی صلاحیتیں ہی مفقود ہوتی جا رہی ہیں۔
کوئی کام کہ دو تو سو بہانے، یا اتنی بات آواز کرنی پڑے گی کہ بندہ کہے خود اٹھ کر کام کر لیں۔ آئیں گے تو دو منٹ ساتھ کھڑے ہو کر احسان کر کے چلے جائیں گے۔ انھیں ماں باپ کی قدر اور عزت کون سکھائے گا اور کیسے سکھائے گا ؟
کوئی باہر سے آکر تو یہ کام کرنے سے رہا۔۔۔
تربیت کا یہ کام کرنا تو ہم کو خود ہی ہے
میں کہتی ہوں اگر اولاد کو سونے کا محل بھی بنا دیا دنیا جہان کی ڈگریاں ہاتھ میں تھما دیں اور تربیت نہ کی تو کوئی فائیدہ نہیں ایسی محنت کا۔۔۔۔۔۔
کاغذ قلم پکڑیں اور آج ہی پلان کریں۔ آج کا دن پھر نہیں آئے گا۔۔۔۔ ابھی تربیت کرنی ہے اور یہ بچے ہی آپکا سب سے بہترین سرمایہ ہیں۔ یہی اولاد ہے جو انسان کے لیے فتنہ بھی بنتی ہے اور صدقہ جاریہ بھی۔
اب آپ انھیں اپنے لیے کیا بنانا چاہتے ہیں ؟یہ آپ پر منحصر ہے۔۔۔اپ کی تربیت پر منحصر ہے۔