وسطی کشمیر کے ضلع گاندربل کے شیر پتھری میں واقع درجنوں علاقوں کے اکثر و بیثتر لوگ ویلو ورکس سے وابستہ ہیں، جبکہ اس علاقے میں تیلیاں اُگا کر تیلیوں کو چھیلنے کے بعد ٹوکریاں، میز، کرسیاں اور کانگڑیاں بنانے کا کام کیا جاتا ہے۔ تاہم کچھ عرصہ سے یہ صنعت حکومت اور ضلع انتظامیہ کی عدم توجہی کے باعث زوال کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شیر پتھری میں شالہ بگ، ژھندن اور اسکے ملحقہ علاقوں کے لوگ اس کاروبار اور کام کے زریعے اپنا پیٹ پالتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہ بڑے پیمانے پر ان تیلیوں کے زریعے بننے والی ٹوکریوں کو باہری ریاستوں میں اس کا کاروبار کرتے ہیں۔
واضح رہے یہ تیلیاں اس علاقے میں ان کی اگائی اور کٹائی کے بعد ایک جگہ پر بنے ہوئے بہلر میں ڈالا جاتا ہے جس کا پانی حد درجہ گرم ہوتا ہے اس کے بعد ان تیلیوں کو چھیلا جاتا ہے جس کے بعد انہیں کونٹل کے حساب سے خرید و فروخت کی جاتی ہے۔ جبکہ چھوٹے موٹے کاروباری لوگ ہر گھر میں تیلیوں کو پہنچا کر ٹوکریاں بنانے یا کانگڑیاں بنانے میں ان دنوں مصروف عمل ہیں۔
اطلاع کے مطابق چھوٹے چھوٹے کاروباری ان تیلیوں کے زریعے بنانے والی ٹوکریاں اسی علاقے میں کسی بڑے تاجر کو فروخت کرتے ہیں اور بڑے تاجر اس مال کو باہری ریاستوں میں لے کر اچھا خاصا پیسہ کماتے ہیں، جبکہ یہ صنعت اب آخری دہانے پر دکھائی دے رہی ہے کیونکہ اس کام سے وابستہ افراد اس وجہ سے مایوس ہیں کہ ان کا ماننا ہے کہ یہ تیلیاں اب کافی کم تعداد میں اگائی جارہی ہیں جسکی وجہ سے یہ تیلیاں اب مہنگی ہو چکی ہیں۔
مرکزی حکومت کی جانب سے گھریلو صنعت کو فروغ دینے کے لئے ‘میک اِن انڈیا’ اور دیگر اسکیمات کو لانچ کیا گیا لیکن ملک بھر کی طرح جموں کشمیر میں ان چھوٹی صنعتوں کو بچانے کے لئے اقدامات نہ کے برابر ہیں۔ ان چھوٹی صنعتوں کو بچانے اور انہیں فروغ دینے کے لئے جموں و کشمیر انتظامیہ سمیت مرکزی حکومت کو آگے آنا ہوگا تاکہ صدیوں پرانی یہ صنعت کو زوال سے بچایا جاسکے۔