حضرت شیخ سیّد عبدالقادر جیلانی
اسلامی مضامین

حضرت شیخ سیّد عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ

حضرت محبوبِ سبحانی قطبِ ربانی غوثِ صمدانی شاہ محی الدین حضرت شیخ سیّد عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز سلطان الفقر سوم کے مرتبہ عالیہ پر فائز و متمکن ہیں۔ آپؒ کی ذاتِ والا صفات کسی تعریف و توصیف کی محتاج نہیں ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ دنیائے ظاہر و باطن اور عالمِ غیب و الشہادت میں آفتابِ عالمتاب سے زیادہ مشہور اور معروف ہیں۔ آپ رحمہ اللہ کے مناقب آسمان کے ستاروں اور ریت کے ذروں سے زیادہ ہیں۔

ولادت مبارکہ:۔
آپ رحمہ اللہ تعالی یکم رمضان المبارک 470ھ (1078ء) بروز جمعة المبارک عالمِ وحدت سے عالمِ ناسوت میں تشریف لائے۔ آپ رحمہ اللہ کے والد ماجد حضرت سیّدنا ابو صالح موسیٰ جنگی رحمة اللہ علیہ حسنی اور والدہ ماجدہ ام الخیر سیّدہ فاطمہ رحمة اللہ علیہا حسینی سیّد ہیں گویا آپ رحمہ اللہ نجیب الطرفین سیّد ہیں۔ آپ کو ہر دو حسبی اور نسبی طور پر فقر کا مرتبہ بدرجہ اتم عطا ہوا اور حقیقتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پورے طور پر آپ کے وجودِ مسعود میں جلوہ گر ہوئی۔

آپ رحمہ اللہ اپنے جد مبارک حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی نائب اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جملہ ظاہری و باطنی اوصاف سے متصف اور جملہ اخلاق سے متخلق تھے۔ ولایت کے آثار اور فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انوار بچپن سے ہی جبینِ مبارک سے ہویدا تھے۔ آپ رحمہ اللہ رمضان المبارک کے مہینہ کی چاند رات کو پیدا ہوئے۔ دن کے وقت مطلق دودھ نہ پیتے تھے صرف سحری کے وقت اور افطار کے بعد والدہ ماجدہ کا دودھ پیتے تھے۔

ولادت کے دوسرے سال ابر کی وجہ سے رویتِ ہلال کے متعلق کچھ شبہ پڑ گیا اس دن شعبان کی انتیس تاریخ تھی۔ دوسرے دن جب غوث الاعظم رحمہ اللہ نے دودھ کو مطلقاً منہ نہ لگایا تو آپ کی والدہ سمجھ گئیں کہ آج رمضان کی پہلی تاریخ ہے چنانچہ انہوں نے لوگوں کو یہ خبر سنائی اور بعد میں معتبر شہادتوں سے اس بات کی تصدیق ہو گئی۔ آپ کے صاحبزادے شیخ عبدالرزاق رحمة اللہ علیہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت غوث الاعظم رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا کہ آپؓ کو اپنے ولی ہونے کا علم کب ہوا؟ تو آپ نے فرمایا کہ جب میں دس برس کا تھا اور اپنے شہر کے مکتب میں جایا کرتا تھا تو فرشتوں کو اپنے پیچھے اور اردگرد چلتے دیکھتا تھا اور جب مکتب میں پہنچ جاتا تو وہ بار بار یہ کہتے کہ ”اللہ کے ولی کو بیٹھنے کے لیے جگہ دو”۔ اسی واقعہ کو بار بار دیکھ کر میرے دل میں احساس پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے درجہ ولایت پر فائز کیا ہے۔

تعلیم:۔
اپنے اعلیٰ ترین مرتبہ سے آگاہی کے باوجود سیّدنا غوث الاعظم رحمہ اللہ نے اللہ کی راہ میں شدید کوشش اور جدوجہد کی، قربِ الٰہی کے لیے سخت ریاضت کی اور جو نفس پہلے ہی مغلوب تھا اسے اپنے اور اللہ کے درمیان سے ہٹانے کے لیے ایسا مجاہدہ کیا کہ اس کے بیان سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔ آپ رحمہ اللہ نے اللہ کا عطا کردہ مرتبہ ایسے ہی حاصل نہ کر لیا بلکہ اسے باقاعدہ جدوجہد سے کمایا۔ اللہ کی محبت میں جس قدر مصائب و مجاہدات آپ رحمہ اللہ نے برداشت کیے وہ کسی اور ولی کے بس میں ہی نہ تھے اور اسی بنا پر آپ رحمہ اللہ کا قدم مبارک ہر ولی کی گردن پر ہے اور تمام اولیاء آپ رحمہ اللہ کے سامنے اپنی گردن جھکاتے ہیں۔

حفظ قرآن مجید:۔
آپ رحمہ اللہ شکمِ مادر میں ہی قرآن پاک کے اٹھارہ سپارے حفظ کر چکے تھے۔ چار برس کی عمر میں رسمی تعلیم کا آغاز ہوا۔ دس برس کی عمر تک تمام ابتدائی علوم پر مکمل دسترس حاصل کر چکے تھے۔ اٹھارہ برس کی عمر میں مزید حصولِ علم کے لیے 488ھ میں بغداد شریف تشریف لے گئے اور مدرسہ نظامیہ میں داخل ہو گئے۔

یہاں آپ رحمہ اللہ کے اساتذہ میں ابوالوفا علی بن عقیل، ابو زکریا یحییٰ بن علی تبریزی، ابو سعید بن عبدالکریم، ابو سعید بن مبارک مخزومی اور ابو الخیر حماد بن مسلم دباس جیسے نامور علماءوآئمہ شامل تھے۔ حضرت ابو سعید مبارک مخزومی رحمة اللہ علیہ آپ رحمہ اللہ کے مرشد و شیخ بھی تھے جن سے آپ رحمہ اللہ نے خرقہ خلافت اور امانتِ الٰہیہ حاصل کی۔ علمِ قرآن، تفسیر، حدیث، علمِ فقہ، علمِ لغت، علمِ شریعت، علمِ طریقت غرض ایسا کوئی علم نہ تھا جو آپ نے اس دور کے باکمال اساتذہ و ائمہ سے حاصل نہ کیا ہوا اور صرف حاصل ہی نہیں کیا بلکہ ہر علم میں وہ کمال پیدا کیا کہ تمام علمائے زمانہ سے سبقت لے گئے۔

سخت ترین مجاہدات وریاضات:۔

بغداد میں آمد کے بعد آپ رحمہ اللہ کو انتہائی پر صعوبت حالات سے دو چار ہونا پڑا۔ آپ رحمہ اللہ حصولِ علم میں اس قدر مصروف تھے کہ کسی ذریعہ معاش کو اختیار نہ کر پائے۔ اس دوران بغداد میں قحط بھی پڑا۔ آپ رحمہ اللہ اکثر یا تو کئی کئی دن کے فاقے کے ساتھ حصولِ علم میں مشغول رہتے یا دریائے دجلہ کے کنارے اگنے والی خود رو بوٹیاں اور سبزیاں کھا کر گزارا کرتے۔ سرِ اقدس پر چھوٹا سا عمامہ ہوتا تھا اور صوف کا ایک جبہ زیب تن ہوتا تھا۔ رات ہونے پر جنگل بیابان میں نکل جاتے زمین آپ رحمہ اللہ کا بستر ہوتی اور اینٹ یا پتھر تکیہ۔ مینہ ، آندھی، جھکڑ طوفان، سردی گرمی ہر چیز سے بے نیاز ہو کر آپ رحمہ اللہ برہنہ پا رات کی تنہائیوں اور تاریکیوں میں دشت نوردی کرتے۔ یہ سب جانکاہ مصائب آپ رحمہ اللہ کو اس لذت کے مقابلے میں ہیچ معلوم ہوتے تھے جو آپ رحمہ اللہ کو تحصیلِ علم اور تلاشِ حق میں حاصل ہوتی۔

سیّدنا غوثِ اعظم رحمہ اللہ 488ھ سے 496ھ تک آٹھ سال کے عرصے میں ہر قسم کے علم پر کامل دسترس حاصل کرنے کے بعد ریاضات و مجاہدات میں مشغول ہو گئے۔ 496ھ سے 521ھ تک پچیس سال کی طویل مدت میں آپ رحمہ اللہ نے ایسے ایسے مجاہدے اور ریاضتیں کیں کہ ان کا حال پڑھ کر انسان کی روح تک لرز جاتی ہے۔ آپ رحمہ اللہ کا اپنا بیان ہے کہ ”میں نے ایسی ہولناک سختیاں جھیلی ہیں کہ اگر وہ پہاڑ پر گزرتیں تو پہاڑ بھی پھٹ جاتا۔ جب مصائب اور تکالیف کی ہر طرف سے مجھ پر یلغار ہو جاتی تھی تو میں تنگ آکر زمین پرلیٹ جاتا اور اس آیت کریمہ کا ورد شروع کر دیتا

”بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے“۔ اس آیت مبارکہ کی تکرار سے مجھے تسکین حاصل ہو جاتی اور جب زمین سے اٹھتا تو سب رنج و کرب دور ہو جاتا۔ ایک بار دورانِ وعظ فرمایا ”میں پچیس سال تک عراق کے ویرانوں اور جنگلوں میں پھرتا رہا ہوں اور چالیس سال تک فجر کی نماز عشاء کے وضو سے پڑھی ہے اورپندرہ سال تک عشاءکی نماز میں ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر صبح تک قرآن حکیم ختم کیا۔ میں نے بسا اوقات تیس سے چالیس دن بغیر کچھ کھائے پیئے گزارے ہیں”۔ شیخ ابو المسعود بن ابوبکر حریمی رحمة اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ سیّدنا عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ ”سالہا سال تک میں اپنے نفس کو طرح طرح کی آزمائشوں میں ڈالتا رہا۔ ایک سال ساگ پات اور کوئی گری ہوئی چیز کھالیتا اور بالکل پانی نہ پیتا۔ ایک سال صرف پانی پیتا اور کوئی چیز نہ کھاتا اور ایک سال بغیر کچھ کھائے پئیے گزار دیتا حتیٰ کہ سونے سے بھی احتراز کرتا۔ کئی سال میں بغداد کے محلہ کرخ کے غیر آباد مکانوں میں مقیم رہا۔ اس سارے عرصہ میں ایک خود رو بوٹی کوندل میری خوراک ہوتی۔ لوگ مجھے دیوانہ کہتے تھے۔ میں صحرا میں نکل جاتا، آہ وزاری کرتا اور کانٹوں پر لوٹتا حتیٰ کہ تمام بدن زخمی ہو جاتا۔ لوگ مجھے شفا خانے لے جاتے لیکن وہاں پہنچ کر بھی مجھ پر حالتِ سکر طاری ہو جاتی۔ لوگ کہتے مر گیا ہے، پھر میری تجہیز و تکفین کا انتظام کرتے اور غسل دینے کے لیے مجھے تختہ پر رکھ دیتے اس وقت یک بیک مجھے ہوش آجاتا اور میں اٹھ کھڑا ہوتا”۔

رشد وہدایات کا آغاز:۔
پچیس سال کے سخت ترین مجاہدے کے بعد حضرت غوث الاعظم رحمہ اللہ فقر و معرفت اور فنافی الرسول و فنافی اللہ‘بقاباللہ کی ان بلندیوں پر فائز ہو گئے جن کے متعلق کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اب خلقِ خدا پر توجہ کرنا اور ان کی تربیت و اصلاح کرنا ان پر فرض ہو گیا۔ 521ھ میں آپ رحمہ اللہ نے حضور علیہ الصلوٰة والسلام کے حکم سے مسند تلقین و ارشاد سنبھالی۔ آپ رحمہ اللہ نے لوگوں کی تربیت کے لیے وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع کیا۔ وعظ کی حیرت انگیز اثر پذیری کے باعث چند ہی دنوں میں آپ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ عراق، شام، عرب و عجم سے ہجومِ خلق آپ رحمہ اللہ کی طرف متوجہ ہو گیا۔ آپ رحمہ اللہ نے چالیس سال تک خلقِ خدا کی رہنمائی کے لیے اپنے صبح و شام وقف کیے رکھے۔ وعظ کے دوران تجلیاتِ الٰہیہ کا شدید نزول آپ رحمہ اللہ کے حالات سے ظاہر ہوتا کبھی آواز میں بہت تیزی آ جاتی، کبھی بات کرتے کرتے چہرہ مبارک سرخ ہو جاتا اور چیخ نکل جاتی۔ عام لوگ تو ان تجلیات کو سہہ بھی نہ پاتے ان پر وجد طاری ہوجاتا۔ بعض لوگ جوش میں آکر اپنے کپڑے پھاڑ ڈالتے، بعض بے ہوش ہوجاتے تھے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ مجلسِ وعظ میں ایک دو شخص غشی کی حالت میں واصل بحق ہو گئے۔

میرا قدم ہرولی کی گردن پر ہے: آپ رحمہ اللہ کی مجلس میں دنیا بھر سے علماءو اولیاء تشریف لاتے اور فیض یاب ہوتے۔ ایک روز دورانِ وعظ اچانک آپ رحمہ اللہ پر حالتِ استغراق طاری ہوئی اور بحکمِ خداوندی آپ کی زبان مبارک پر یہ کلمہ جاری ہو گیا۔ ترجمہ:”میرا قدم ہرولی کی گردن پر ہے”۔

اسی وقت غیب سے تمام عالم میں منادی کر دی گئی کہ جمیع اولیاءاللہ محبوبِ سبحانی، غوثِ اعظم رحمہ اللہ کی اطاعت کریں اور آپ رحمہ اللہ کے ارشاد کو بسر و چشم بجا لائیں۔ یہ سنتے ہی جملہ اولیاءاللہ جو زندہ تھے یا مردہ، محفل میں موجود تھے یا نہیں سب نے اپنی اپنی گردنیں اطاعتِ حکم میں جھکا دیں حتیٰ کہ جنات نے بھی اس حکم کی اطاعت کی۔ آپ کا یہ فرمان اور اس کی اطاعت کا احوال کثرت سے آپ کے ہمعصر اکابر مشائخ سے مروی ہے اور آپ رحمہ اللہ کے مناقب و احوالِ حیات پر لکھی گئی تمام کتب میں تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔

کرامات:۔
آپ رحمہ اللہ کی بہت سی کرامات منقول ہیں لیکن سب سے بڑی کرامت دینِ اسلام کو اس کی اصل حقیقی صورت میں دوبارہ زندہ کرنا تھا جس صورت میں وہ حضور علیہ الصلوٰہ والسلام اور خلفائے راشدین کے دور میں تھا۔ اسی وجہ سے آپ کا لقب ”محی الدین” ہے یعنی دین کو زندہ کرنے والا۔ مجلسِ وعظ ہو یا خانقاہ کی خلوت، مدرسہ کے اوقاتِ درس و تدریس ہوں یا مسندِ تلقین و ارشاد، ہر جگہ آپ رحمہ اللہ کی جدوجہد احیائے دین کے محور کے گرد گھومتی تھی۔ آپ رحمہ اللہ کی تشریف آوری سے قبل عالمِ اسلام انتشار اور خلفشار کا شکار ہو چکا تھا۔ سیاسی طور پر بھی سلطنتِ اسلامیہ کمزور پڑ چکی تھی اور دینی لحاظ سے بھی مسلمان بہت سے فرقوں میں تقسیم ہو چکے تھے۔ ظاہریت پرستی بڑھ چکی تھی اور حقیقتِ دین پر کسی کی نظر نہ تھی۔ آپ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب غنیة الطالبین میں تہتر فرقوں کا ذکر فرمایا ہے جن میں سے زیادہ تر گمراہ اور بدعتی تھے۔ مسلمان بے معنی مباحثوں اور مناظرات میں الجھے ہوئے تھے۔

اہلِ باطن کا دعویٰ کرنے والوں کا حال بھی برا تھا اور ان کے پاس بھی صرف ظاہری علم ہی رہ گیا تھا جس کی وجہ سے روحانی سلاسل بھی زوال کا شکار تھے۔ اس گمراہ کن اور پر فتن دور میں آپ رحمہ اللہ نے ان تمام گمراہ کن باطنی سلاسل اور ظاہری مسالک کا خاتمہ کیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے چلے آ رہے تمام سلاسل حضور غوث الاعظم رحمہ اللہ کی مبارک ذات میں جمع ہو گئے۔ آپ رحمہ اللہ نے ان میں در آنے والی تمام بدعات کا خاتمہ کیا اور پھر سلاسل کا ایک جدید نظام قائم کیا۔ آپ رحمہ اللہ سے چار سلاسل جاری ہوئے قادری، چشتی، سہروردی اور نقشبندی۔ قادری سلسلہ آپ رحمہ اللہ کا اپنا سلسلہ ہے جبکہ دیگر سلاسل کے بانی اولیاءآپ رحمہ اللہ سے فیض یافتہ ہیں۔ آپ رحمہ اللہ کے سلسلہ سروری قادری کو دیگر سلاسل پر اسی طرح فضیلت و برتری حاصل ہے جس طرح آپ رحمہ اللہ کو تمام دیگر اولیاءپر۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ”ہمعات” جو ایک لحاظ سے تصوف کی تاریخ ہے، میں آپ کا مرتبہ یوں بیان فرماتے ہیں ”حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے بعد اولیاءکرام اور اصحابِ طریقت کا سلسلہ چلتا ہے۔ ان میں سب سے قوی الاثر بزرگ جنہوں نے راہِ جذب کو باحسنِ وجوہ طے کر کے نسبتِ اویسی کی اصل کی طرف رجوع کیا اور اس میں نہایت کامیابی سے قدم رکھا وہ شیخ عبدالقادر جیلانی کی ذاتِ گرامی ہے۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ آپ اپنی قبر میں زندوں کی طرح تصرف فرماتے ہیں۔ (ہمعات)

آپؒ سے ایک بار پوچھا گیا کہ آپ کے اور دوسرے طریقوں کے طالبوں میں کیا فرق ہے تو آپ نے فرمایا کہ: یعنی” میرا انڈا (دوسروں کے) ہزار بچوں کے برابر ہے اور میرے بچے کی کوئی برابری نہیں کر سکتا”۔ آپ رحمہ اللہ سلسلہ سروری قادری کے سالکوں اور طالبانِ مولیٰ کی باطن میں خود تربیت فرمانے کے بعد انہیں ظاہری مرشد کے حوالے فرماتے ہیں۔

جس نے بھی غوثیت و قطبیت و درویشی و فقیری و اولیائی و ولایت و ہدایت کی دولت و نعمت و سعادت پائی حضرت غوث الاعظم رحمہ اللہ کی بارگاہ سے پائی کیونکہ دونوں جہان کی چابی آپ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ جو آپ کا منکر ہوا وہ دونوں جہان میں مردود الحق ہو کر ابلیس خبیث کی طرح پریشان ہوا۔ ہر مومن بند خدا جو (حقیقت میں) حضور علیہ الصلوٰ والسلام کا ا±متی ہے یا امتی تھا یا غوث و قطب ولی اللہ ہے حضور غوث پاک کا مرید ہے۔ ان میں سے کوئی بھی حضور غوث پاک کی مریدی سے باہر نہیں۔ جو ان کی مریدی سے انحراف کرتا ہے وہ معرفتِ مولیٰ تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا۔ (محک الفقر کلاں)

حضرت بہاو الدین نقشبند رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: ترجمہ: دو جہانوں، اولادِ آدم، زمین و آسمان کے تمام انسانوں، جنوں، فرشتوں اور تمام مخلوق کے بادشاہ اور رہنما حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ ہی ہیں اور ہر ایک کی زبان پر آپ کا ہی ذکر ہے۔ آپ رحمہ اللہ نے بے شمار کتب تصنیف فرمائیں جن میں فقر و عرفان کے اسرار کے خزانے موجود ہیں۔ ان تصنیفات سے مردہ قلوب کو حیات ملتی ہے۔ چند مشہور تصنیفات جن کے تراجم دستیاب ہیں مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) الفتح الربانی (خطبات) (۲) فتوح الغیب (مقالات)
(۳) سرّ الاسرار (فقر) (۴) الرسالہ الغوثیہ (فقر)
(۵) غنیة الطالبین (فقہ) (۶) دیوانِ غوثیہ (فارسی غزلیات)

غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کا وصال 91سال کی عمر میں 11ربیع الثانی 561ھ کو بغداد میں ہوا۔ قبل وصال آپ رحمہ اللہ نے امانتِ الٰہیہ (امانتِ فقر) اپنے جلیل القدر فرزند اور خلیفہ اکبر حضرت شیخ عبدالرزاق جیلانی رحمة اللہ علیہ کے سپرد فرمائی جو سلطان الفقر چہارم کے مرتبہ پر فائز ہیں۔ حضور غوث الاعظم رحمہ اللہ کا مزار مبارک بغداد شریف میں مرجع خلائق ہے۔