فلسطینیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا ہے کہ نئے تسلیم شدہ مکانات اسرائیل کے زیر کنٹرول مغربی کنارے کے 60 فیصد علاقے میں ضرورت کا صرف ایک چھوٹا حصہ پورا کرتے ہیں۔ فلسطینی تعمیرات کے لیے فوجی اجازت نامے بہت ہی کم دیے جاتے ہیں اور اکثر غیر مجاز تعمیرات کو منہدم کر دیا جاتا ہے۔
صیہونیوں کے لیے 3000 سے زائد ہاؤسنگ یونٹس تعمیر کرنے کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے بعد اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے میں تقریباً 1,300 فلسطینی باشندوں کے مکانات کو منظوری دی گئی ہے۔
اسرائیل کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ ایک لبرل انداز اختیار کر رہی ہے، جس کا مقصد یہودی بستیوں کی مخالفت کرنے والے امریکہ کے ساتھ محاذ آرائی کو کم کرنا اور مختلف جماعتوں کے اپنے ملک کے حکمران اتحاد کے اندر کشیدگی کو کم کرنا ہے۔
فلسطینیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ نئے تسلیم شدہ مکانات اسرائیل کے زیر کنٹرول مغربی کنارے کے 60 فیصد علاقے میں ضرورت کا صرف ایک چھوٹا حصہ پورا کرتے ہیں۔فلسطینی تعمیرات کے لیے فوجی اجازت نامے شاذ و نادر ہی دیے جاتے ہیں اور اکثر غیر مجاز تعمیرات کو منہدم کر دیا جاتا ہے۔
ایک اسرائیلی سکیورٹی اہلکار نے فلسطینیوں کے گھروں کی منظوری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ مکانات کو تسلیم کر لیا گیا ہے اور نئے تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
اسرائیل نے 1967 کی مغربی ایشیاء جنگ میں مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا تھا جبکہ فلسطینی اسے اپنے مستقبل کے دارالحکومت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایسے میں اس علاقے میں اسرائیل مسلسل یہودی بازآبادکاروں کے لیے کالونیاں تعمیر کر رہا ہے جبکہ فلسطینی باشندوں کے گھروں پر انہدامی کاروائی اور انہیں گھر سے بے دخل کرنے کے لیے کورٹ کا نوٹس بھیجتا ہے۔
اقوامی متحدہ سمیت بین الاقوامی تنظیمیں فلسطینی باشندوں پر اسرائیلی ظلم کو تسلیم تو کرتی ہیں لیکن اسرائیل کے خلاف کھڑی نہیں ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اسرائیلی قبضے کو بھی اقوام متحدہ ناجائز قرار دیتا ہے لیکن اسرائیل کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی ہے۔
آج یہ خطہ 2.5 ملین سے زیادہ فلسطینیوں اور تقریباً 500,000 یہودیوں کا گھر ہے۔ فلسطینی اور زیادہ تر عالمی برادری یہودی بستیوں کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھتے ہے۔