مساجد پر حملہ ناقابل قبول
حالات حاضرہ قومی خبریں

مساجد پر حملہ ناقابل قبول

مختلف مسلم تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے تریپورہ میں مساجد اور مکانات پر حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ خاطی افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور متاثرہ افراد کو معاوضہ بھی دیا جائے۔

جماعت اسلامی ہند کے قومی سکریٹری ملک محتشم خان نے کہا کہ تریپورہ میں کئی مساجد اور مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا، مسلم مرد و خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

رپورٹ کے مطابق ایک مسجد کو پوری طرح نذر آتش کردیا گیا، جبکہ اگرتلہ میں احتجاج کے دوران ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف فرقہ واریت پر مبنی نعرے بازی کی گئی۔

پاپولر فرنٹ آف انڈیا نے بھی تریپورہ میں مساجد اور مسلمانوں پر حملے کی سخت مذمت کی اور خاطی افراد کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بنگلہ دیش میں ہوئے واقعے کی بھی سخت مذمت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات جمہوریت کےلئے انتہائی نقصان دہ ہے۔

واضح رہے کہ 20 اکٹوبر کو فرقہ وارانہ تشدد کی لہر میں تریپورہ بھر میں ہندوتوا گروپس کی جانب سے کئی مساجد اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

شمال مشرقی ریاست میں دائیں بازو ہندو گروپس نے چھ مساجد اور مسلمانوں کے ایک درجن مساجد اور مکانات‘ دوکانات میں توڑ پھوڑ کی ہے۔

میڈیا کی رپورٹ کے مطابق پر تشدد دائیں بازو کا ہجوم بھگوا کپڑے پہنے‘ ہاتھوں میں تلواریں تھامے مخالف مسلم نعرے بازی کے ساتھ فوٹوز او رویڈیوز میں دکھائی دے رہے ہیں جو ہتھیار تھامے مساجد کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

ہجوم کا تعلق وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی)‘ہندو جاگرن منچ‘بجرنگ دل اور راشٹرایہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)کا بتایا جارہا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ تشدد پچھلے ہفتہ بنگلہ دیش میں پیش آنے والے فرقہ وارانہ تشدد کا نتیجہ ہے۔

اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن کے ایک جہدکار سفیر رحمن نے مکتوب میڈیا کو بتایا کہ 20اکٹوبرسے اب تک ہندو گروپس نے کم سے کم چھ مساجد کو نشانہ بنایا ہے۔

ہندو گروپس کی جانب سے مخالف مسلم تشدد کے لئے اکسانے کے بعد علاقے میں رپورٹس کے بعد 144دفعہ نافذ کردیا گیا ہے۔

رحمن نے مکتوب کو بتایاکہ”یہ تمام واقعات بنگلہ دیش میں فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف احتجاج کے دوران پیش آیا ہے“۔

امت تشار نام کے ایک ٹویٹر صارف نے اس معاملے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تریپورہ میں چھ مساجد کو نقصان پہنچایا گیا اور نہ ہی اس واقعے کو نیشنل میڈیا میں کوئی جگہ دی گئی ہے۔