آپ ﷺ کا اسم مبارک محمد بن عبد اللہ ہے والدہ نے آپ کا نام احمد رکھا تھا۔
سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم آپ ﷺ کا نسب شریف ہے۔
والد ماجد کا نام حضرت عبداللہ، دادا کا عبدالمطلب، دادی کا فاطمہ اور پردادا کا ہاشم ہے۔
آپ ﷺ کی کنیت ابو القاسم ہے۔
وَالدہ کا نام آمنہ بنت وہب ہے۔ نانا کا وہب، اور نانی کا بَرّہ ہے۔
آپ ﷺ کی وِلادت بروز پیر12ربیع الاوّل عام الفیل صبح صادق کے وقت ہوئی۔
وَالد ماجد کا اِنتقال وِلادت سے قبل ہی بحالتِ سفر مدینہ منورَہ میں ہوچکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب نے کی اور سیدہ حلیمہ سعدیہؓ نے دودھ پلایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 6 سال کی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم 8 سال کے ہوئے تو دادا کا سایہ بھی سر سے اْٹھ گیا۔
آپ ﷺ کے 9 چچا تھے جن میں حضرت حمزہؓ اور حضرت عباسؓ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ نبی کریمﷺ کی چھ پھوپھیاں تھے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا، حضرت اروی رضی اللہ عنہا، ام حکیم، عاتکہ، امیمہ اور بَرّہ۔
9 سال کی عمر میں چچا کے ساتھ شام کا سفر فرمایا اور25سال کی عمر میں شام کا دوسرا سفر حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی تجارت کے سلسلہ میں فرمایا اور اس سفر سے واپسی کے 2ماہ بعد حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے شادی ہوئی۔
35 سال کی عمر میں قریش کے ساتھ تعمیرِ کعبہ میں حصہ لیا اور پتھر ڈھوئے۔حجرِ اسود کے بارے میں قریش کے اْلجھے ہوئے جھگڑے کا حکیمانہ فیصلہ فرمایا جس پر سبھی خوش ہوگئے۔آپ ﷺ کو 40 سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔ نبوت ملنے کے بعد 10 سال آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں قیام فرمایا۔
ہجرتِ مبارکہ: جب مکہ کی سرزمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام پر بالکل تنگ کردی گئی تب اللہ کے حکم سے آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور صحابہ کرام نے اللہ کے لیے اپنے گھر بار، آل و اولاد، زمین وجائداد سب کو چھوڑ چھاڑ کر حبشہ و مدینہ کا رخ کیا پہلی ہجرت صحابہ کے ایک گروہ نے حبشہ کی طرف کی تھی، پھر جب آپ مدینہ تشریف لے گئے تو مدینہ اسلام کا مرکز بن گیا۔
غزوات و سرایا : ہجرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک طرف آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت اسلام کی تحریک میں کشادہ میدان اور مخلص معاون افراد ملے جس کے باعث قبائل عرب میں تیزی سے اسلام پھیلنے لگا تو دوسری جانب مشرکین مکہ اور مدینہ کے یہودیوں کی لڑائیوں کا سامنا بھی تھا۔اللہ تعالیٰ نے دشمنوں سے لڑنے اور ان کو منھ توڑ جواب دینے کی اجازت عطا فرمائی اور غزوات وسَرایا کا سلسلہ شروع ہوا جو اہم غزوات پیش آئے یہ ہیں۔
غزوہٴ بدر 2ھ میں مومنین ومشرکین مکہ کے درمیان میدانِ بدر میں سب سے پہلا غزوہ پیش آیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپہ سالاری میں تین سو تیرہ مجاہدین نے مشرکین کے ایک ہزار ہتھیار بند لشکر کو شکست سے دوچار کیا اور ابوجہل، شیبہ، عتبہ سمیت ستر (70) سردارانِ قریش مارے گئے اور ستر گرفتار ہوئے اسی سے مسلمانوں کی دھاک قبائل عرب پر نقش ہوگئی۔
غزوہٴ اُحد ۳ھ شوال میں یہ غزوہ ہوا مسلمان سات سو اور کفار تین ہزار تھے۔
غزوات ذات الرقاع 4ھ میں پیش آیا اسی میں آپ نے صلوٰة الخوف ادا فرمائی۔
غزوہٴ احزاب (خندق) ۵ھ میں ہوا مشرکین مکہ نے قبائل عرب کا متحد محاذ بناکر حملہ کیا تھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورہ سے مدینہ کے اردگرد چھ کلو میٹر لمبی خندق کھدوائی تھی اسی لیے اس کو غزوہٴ خندق بھی کہتے ہیں۔
غزوہٴ بنی المصطلق ۶ھ میں ہوا اسی میں منافقین نے حضرت عائشہؓ پر تہمت لگائی تھی۔
غزوہ صلحِ حدیبیہ 6ھ میں ہوئی
غزوہٴ خیبر 7ھ میں پیش آیا یہ یہودیوں سے آخری غزوہ تھا اس سے قبل غزوہٴ بنو نضیر اور غزوہٴ بنوقریظہ میں یہودیوں کو جلاوطن اور قتل کیاگیا تھا۔
غزوہٴ تبوک 9ھ میں پیش آیا ہرقل سے مقابلہ تھا۔ ان غزوات کے علاوہ بہت سے سرایا صحابہ کرام کی سرکردگی میں مختلف مواقع پر روانہ فرمائے۔
فتح مکہ وغزوہٴحنین : 8ھ میں اسلامی تاریخ کا وہ واقعہ عینی فتحِ مکہ پیش آیا جس سے کلی طور پر اسلام کو عرب میں غلبہ حاصل ہوگیا۔
آپ ﷺ کے چیزوں کے نام: رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ شریفہ تھی کہ آپ اپنی چیزوں کا نام رکھ دیا کرتے تھے سیرت کی کتابوں اور مضامین سے چیزوں کے ناموں کا ذکر پیش کیا جارہا ہے۔
عمامہ شریف کا نام سحاب تھا۔
دوپیالے کا نام ریان اور دوسرے کا نام مضیّب تھا۔
آبخورہ کا نام صادِر تھا۔
خیمہ کا نام رِکی تھا۔
آئینہ کا نام مُدِلہ تھا۔
قینچی کا نام جامع تھا۔
جوتی مبارکہ کا نام ممشوق تھا۔
تین خچر تھے ایک کا نام دُلدل تھا دوسرے خچر کا نام فِضّہ تھا تیسرے کا نام اِیلیہ تھا۔
ایک گدھا تھا جس کا نام یعفور تھا۔
سواری کی دو اونٹنیاں تھیں ایک کا نام قصواء اور دوسری کا نام عضباء تھا۔
دوبکریاں خاص دودھ کے لیے تھیں ایک کا نام غوثہ اور دوسری کا نام یمن تھا۔
ایک سفید رنگ کا مرغ بھی تھا جس کا نام ”منقول“ تھا۔
آپ ﷺ کے تقریبا 28 غلام اور دس باندیاں تھیں ان سب کو آپ ﷺ نے آزاد فرمایا تھا۔ زید بن حارثہ سب سے زیادہ مشہور اور چہیتے تھے۔ان کو آپ نے اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا تھا اور زید بن محمد کہلاتے تھے پھر جب متبنّیٰ سے متعلق آیت نازل ہوئی، تو اپنے والد حارثہ کی طرف منسوب ہونے لگے۔
حضور ﷺ نے مختلف بادشاہوں کے پاس اسلام کا پیغام دے کر سفراء کو بھیجا تھا۔ جن کی تعداد دس ہیں۔
ازواج مطہرات: وفات کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں کُل نو ازواج مطہرات تھیں، یہ بیویاں تھیں جن کے فضائل قرآن کریم میں آئے ہیں کہ تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو، یہ حرم نبی ہیں ان کو دنیا کی تمام عورتوں میں خصوصی امتیاز و فضیلت حاصل ہے۔
(۱) حضرت سودہ بن زمعہ رضی اللہ عنہا ان سے قبلِ ہجرت نکاح فرمایا۔
(۲) حضرت عائشہ بن ابی بکرؓ ان سے بھی ہجرت سے قبل نکاح ہوا اور رخصتی مدینہ میں ایک ہجری میں ہوئی۔
(۳) حضرت حفصہ بن عمر رضی اللہ عنہا ان سے شعبان ۳ھ میں نکاح فرمایا۔
(۴) حضرت ام سلمہ بن ابی امیہ رضی اللہ عنہا ان سے شعبان 4ھ میں نکاح فرمایا۔
(۵) حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا ان سے ۵ھ میں نکاح فرمایا
(۶) حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا ان سے 6ھ میں نکاح فرمایا اور خلوت ۷ھ میں ہوئی۔
(۷) حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا ان سے 4ھ میں نکاح فرمایا۔
(۸) حضرت میمونہ بنت حارث ہلالیہ رضی اللہ عنہا ان سے ۷ ھ میں نکاح فرمایا۔
(۹) حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا ان سے ۷ھ میں نکاح فرمایا یہ یہودی سردار کی صاحبزادی تھیں۔
(۱۰) حضرت خدیجة الکبریٰ بنت خویلد رضی اللہ عنہا آپ نے سب سے پہلے انھیں کی خواہش و پیغام پر نکاح کیا تھا جب کہ آپ کی عمر شریف 25سال تھی اور وہ بیوہ چالیس سال کی باعزت مالدار خاتون تھیں آپ کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیمؓ کے انھیں کے بطن سے ہیں یہ ہجرت سے قبل وفات پاگئیں تھیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بہت قدر فرماتے تھے ہمیشہ یاد کرتے رہے۔
(۱۱) حضرت زینب بن خزیمہ رضی اللہ عنہا ان سے ۳ھ میں نکاح فرمایا مگر دو یا تین ماہ کے بعد یہ وفات پاگئیں۔
اولاد الرسول صلی اللہ علیہ وسلم: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم بن محمد علیہ السلام کے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہیں۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی اور سب سے محبوب صاحبزادی تھیں، ان کا نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہوا تھا۔
حضرت عبداللہ جن کا لقب طاہر اور طیب ہے اور حضرت قاسم یہ دونوں صاحبزادے بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھے، ہجرت سے قبل مکہ میں وفات پائے حضرت قاسمؓ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھے یہ دو تین سال کے بعد وفات پائے۔
سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ایک جھلک ہے سیرة مبارکہ کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مسلمان نمونہ کامل بنانے پر قادر نہیں ہوگا زندگی کے ہر شعبہ میں حضور ﷺ کا اسوہ حسنہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو سیرت النبیﷺ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Thanks for the good article, I hope you continue to work as well.Спаситель на продажу
ہمت افزائی کے لئے شکریہ جزاک اللہ خیرا