حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاتم النبین و سیدالمرسلین ہیں۔آپ کی حیاتِ طیبہ ہی انفرادی و اجتماعی زندگی کا حسین نمونہ ہے۔ آپ کے اُسوہ حسنہ کی حقیقت رحمة للعالمین ہے اور اس حقیقت و واقفیت کو خود رب تبارک و تعالیٰ نے انتہائی قطعیت اور معجز نما ایجاز بلاغت سے اس طرح بیان فرمایا ”اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بناکر ہی بھیجا ہے“۔
آپ صاحب خلق عظیم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی جملہ کائنات آپ کے عالم گیر و ہمہ گیر اخلاق حسنہ یا خلق عظیم سے مستفید ہورہی ہے اور قیامت تک ہوتی رہے گی۔ آپ ہر عالم اور اس کی مخلوقات کے لئے محبت، شفقت اور احسان ہیں۔ آپ کی زندگی میں سچ تھا جھوٹ نہ تھا، عدل تھا ظلم نہ تھا، صدق و اخلاق تھا کذب و نفاق نہ تھا۔ شفقت و محبت تھی، حسد و عداوت نہ تھی، حلم و رحم تھا غصہ و انتقام نہ تھا، ہمدردی و غمگساری تھی تغافل و جفاکاری نہ تھی۔ انکساری و تواضع تھی، غرور و تکبر نہ تھا۔
الغرض آپ کی سیرت جملہ محاسن و مکارم اخلاق سے اس طرح مزین تھی کہ ہر کوئی اپنا ہو یا پرایا یہ بول اُٹھا کہ آپ احباب و اغیار سب کے لئے رحمت تھے اور ہمیشہ رحمت رہیں گے۔ آپ اس قدر فیاض و سختی، محسن و مخیر تھے کہ آپ کے پاس جو کچھ ہوتا اہل احتیاج میں تقسیم کردیتے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے نہ صرف اپنی کمائی بلکہ اُم المؤمنین حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کے بعد اُم المؤمنین کی دولت مبارکہ سے فلاحی و رفاہی کاموں اور تحریک اسلام کیلئے خرچ فرمایا۔
آئیے اس مبارک ماہ ربیع النور کی آمد آمد پر تمام عاشقان رسول یہ عزم صمیم کریں کہ اس بابرکت و باسعادت مہینہ کے توسط سے بقیہ۱۱ ماہ بھی بلکہ تمام زندگی ہم اتباع رسول و سنت رسول میں زندگی گذار دیں گے اور سرکار دوعالم ﷺ کے اُسوۂ حسنہ کو اپنی زندگیوں میں شامل فرمائیں گے۔
اطاعت مصطفی ﷺ دراصل اطاعت خدا ہے :۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ”ہم نے ہر رسول کو صرف اسی مقصد کے لئے بھیجا ہے کہ اذن خداوندی سے اس کی اطاعت کی جائے“ یہ آیت کریمہ مقصد رسالت کو بالکل واضح کرکے ہر رسول کی بنیادی خصوصیت کو بیان کرتی ہے کہ رسول کی بعثت کا بنیادی مقصد اطاعت رسول ہے۔ اب ہم رسول پر ایمان لاتے ہیں تو اس ایمان میں پانچ باتیں لازماً شامل ہوتی ہیں۔
ایک یہ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول اور خاتم النبیین ہیں۔ دوسری یہ کہ بنی نوع انسان کے لئے آپﷺ کامل نمونہ ہیں۔ تیسری یہ کہ آپﷺ کے ہر قول و فعل میں حکمت ہے۔ چوتھی یہ کہ فوز و فلاح کی راہ وہی ہے، جو آپﷺ نے دکھائی۔ پانچویں یہ کہ جو نظام زندگی آپﷺ نے دیا، وہی انسانیت کے لئے صحیح اور درست ہے۔
جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر اعتماد کامل نہ ہو، اس وقت تک ایمان کا مزا ہی نہیں آتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایمان کا مزا اس نے چکھا اور ایمان کی لذت اس کو ملی، جو اللہ کو اپنا رب، اسلام کو اپنا دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول ماننے پر دل سے راضی ہو گیا“ (مسلم شریف)
جس طرح مادی غذاؤں میں لذت ہوتی ہے، اسی طرح ایمان میں بھی ایک خاص لذت اور حلاوت ہوتی ہے، لیکن یہ لذت و حلاوت انھیں خوش نصیبوں کو حاصل ہوتی ہے، جو پورے شرح صدر کے ساتھ اللہ کو اپنا رب، اسلام کو اپنا دین اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول مان لیں۔کسی نبی اور رسول کو اللہ تعالی کی طرف سے اس لئے نہیں بھیجا گیا کہ اسے صرف مان لیا جائے کہ وہ نبی یا رسول ہیں۔ یہ ایک بے مقصد اور لاحاصل بات ہے اور اللہ تعالی کی ذات کسی بے مقصد اور لایعنی بات کا حکم دینے سے پاک ہے۔
اللہ تعالی اپنے بندوں سے براہ راست گفتگو نہیں کرتا، بلکہ انبیاءکرام علیہم السلام کے توسط سے کرتا ہے۔ انبیاءکرام ہی بندگان خدا کو خدا کی مرضیات اور نامرضیات سے آگاہ کرتے ہیں۔ وہی بتاتے ہیں کہ اللہ تعالی کن کاموں سے خوش ہوتا ہے اور کن کاموں سے ناخوش ہوتا ہے، اس لئے ہر نبی نے یہ اعلان کیاکہ ”تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو“ (بخاری شریف)
اطاعت کی نسبت خدا اور رسول دونوں کی طرف ہوسکتی ہے، لیکن اتباع کی نسبت رسول کی طرف ہوتی ہے، خدا کی طرف نہیں۔ کیونکہ اتباع کے لئے شخصیت کا ہونا ضروری ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شخصیت ہیں۔ اتباع کی نسبت خدا کی طرف اس لئے نہیں کی جاسکتی کہ خدا، وجود ہے شخصیت نہیں۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ”اے نبی (ﷺ) آپ بتادیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، پھر اللہ بھی تم سے محبت کرے گا“۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی محبت حاصل کرنا چاہتے ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو۔ یہ بڑی معنی خیز آیت ہے، یعنی اتباع رسول سے پہلے اللہ تعالی محبوب ہے اور بندہ محب ہے، لیکن جب اتباع کی منزل طے ہوتی ہے تو اب صورت حال پلٹ جاتی ہے۔ اتباع رسول کے بعد بندہ اللہ کا محبوب ہوجاتا ہے اور اللہ تعالی اس کا محب، پھر تو ساری خدائی بندے کی ہے۔ شاید اسی بات کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے:
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا! لوح و قلم تیرے ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا کا مطلب آپﷺ کی اتباع ہے، اللہ تعالی نے اپنی محبت کو رسول کی اتباع سے مشروط کردیا ہے اور اسی اتباع کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو ”اسوہ“ بنایا گیا ہے۔ یہاں ایک اور نکتہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اسوہ کے معنی صرف نمونے ہی کے نہیں ہیں، بلکہ اس کے معنی اور بھی ہیں۔ اسوہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں، جس سے تسلی اور تشفی ہو جائے اور بے چینی میں سکون حاصل ہو جائے۔ ان دونوں معنی کو سامنے رکھا جائے تو مطلب یہ ہوا کہ اسوۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ چیز ہے، جس سے ہم کو تسلی، تشفی اور آسودگی نصیب ہوگی۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس نکتہ کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)