اسلام آباد: طالبان نے افغانستان میں شدت پسند گروپوں پر قابو پانے کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون کو مسترد کر دیا۔ طالبان کا کہنا ہے کہ دہشت گروہ ’داعش‘ کی سرکوبی کے لیے ہمیں امریکا کی مدد کی ضرورت نہیں۔ طالبان دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
طالبان کی طرف سے یہ موقف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دوسری طرف قطر کے دارالحکومت دوحا میں طالبان اور امریکا کے درمیان پہلے براہ راست مذاکرات شروع ہوئے۔طالبان کے اعلیٰ حکام اور امریکا کے نمائندے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ملاقات جاری رکھیں گے۔ دونوں فریقوں کے عہدیداروں نے کہا کہ زیر بحث مسائل میں شدت پسند گروہوں کو لگام ڈالنا اور غیر ملکی اور افغان شہریوں کو ملک سے نکالنا شامل ہے۔
طالبان نے انخلاکے بارے میں لچک دکھائی ہے۔ طالبان کے سیاسی شعبے کے ترجمان سہیل شاہین نے خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو بتایا کہ افغانستان میں داعش کی شاخ کے تعاقب میں واشنگٹن کے ساتھ کوئی تعاون نہیں ہوگا۔اس سوال کے جواب میں کہ آیا طالبان امریکا کے ساتھ مل کر داعش پر قابو پانے کے لیے کام کریں گے؟
شاہین نے کہا کہ ہم خود ’داعش‘ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ داعش نے متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ان حملوں میں گذشتہ جمعہ کو قندوز میں شیعہ برادری کی مسجد میں ہونے والا خود کش حملہ اور دیگر ایسے مہلک حملے شامل ہیں۔ داعش نے 2014 میں مشرقی افغانستان میں اپنے ظہور کے بعد سے کئی مہلک حملے کیے ہیں۔ شدت پسند تنظیم کو امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ بھی سمجھا جاتا ہے۔
دوحہ میں ہفتے کے آخر میں ہونے والی ملاقاتیں اگست کے آخر میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد ، 20 سالہ فوجی موجودگی کے خاتمے اور ملک میں طالبان کے اقتدار میں اضافے کے بعد پہلی ملاقات ہے۔ امریکا نے واضح کیا ہے کہ مذاکرات تحریک طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار نہیں کی جا رہی ہے۔ان مذاکرات کا محور افغانستان تھا۔
پاکستانی حکام نے امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان کے نئے حکمرانوں سے رابطہ کرے اور افغانستان میں معاشی تباہی کو روکنے کے لیے منجمد اربوں ڈالر کے بین الاقوامی فنڈز بحال کرے۔