نیویارک: فلپائن کی نوبل انعام یافتہ صحافی ماریہ ریسا نے فیس بک پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوشل میڈیا سائٹ جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انہوں نے کہا کہ فیس بک نفرت انگیزی اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکام رہی ہے اور کمپنی ’حقائق کے حوالے سے تعصب‘ سے کام لیتی ہے۔
صحافی اور فلپائن کی نیوز سائٹ ’ریپلر‘ کی سربراہ نے بتایا کہ ’فیس بک کا الگورتھم حقائق کے برعکس غصے اور نفرت سے بھرے جھوٹ کو ترجیح دیتا ہے۔ماریہ ریسا نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا ہے جب فیس بک کی ایک سابق ملازم نے الزام لگایا ہے کہ کمپنی نفرت انگیزی اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کے بجائے منافع کو ترجیح دیتی ہے، جبکہ فیس بک نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
ماریہ ریسا کے بیان پر فیس بک کے ترجمان نے کہا ہے کہ کمپنی نقصان دہ مواد کو ہٹانے یا اسے کم کرنے کے لیے مسلسل سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ہم پریس کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں اور دنیا بھر کے میڈیا کے اداروں اور صحافیوں کی حمایت کرتے ہیں۔
ماریہ ریسا نے کہا کہ فیس بک دنیا بھر میں خبروں کی ترسیل کے لیے ایک بڑا پلیٹ فارم ہے، لیکن یہ حقائق اور صحافت کے خلاف تعصب کا مظاہرہ کرتا ہے۔اگر حقائق نہ ہوں تو سچ سامنے نہیں آتا اور یقین پیدا نہیں ہوتا۔ اگر یہ دونوں نہ ہوں تو جمہوریت نہیں رہتی۔ اگر حقائق نہ ہوں تو آپ کے سامنے سچ نہیں آتا اور آپ موسمیاتی تبدیلی اور کورونا وائرس جیسے مسائل کا حل نہیں ڈھونڈ سکتے۔
ماریہ ریسا پر فلپائنی صدر کے حامیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر سخت تنقید کی جاتی رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ان کو تباہ کرنا اور ریپلر کی ساکھ کو مجروع کرنا ہے۔اس سے قبل فیس بک سے متعلق دستاویزات سامنے لانے والی ڈیٹا سائنٹسٹ نے کہا تھا کہ سوشل میڈیا کمپنی صارفین کی حفاظت سے زیادہ منافع کمانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
امریکی ریاست آئیوا سے تعلق رکھنے والی 37 سالہ ڈیٹا سائنٹسٹ فرانسس ہاؤگن نے گوگل اور پنٹرسٹ جیسی کمپنیوں کے لیے کام کیا ہے۔انہوں نے امریکی نیوز چینل سی بی ایس کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ فیس بک نے وقتاً فوقتاً یہ ثابت کیا ہے کہ وہ منافع کو حفاظت پر ترجیح دیتے ہیں، وہ اپنا منافع کمانے کے لیے ہماری حفاظت کو قیمت کے طور پر ادا کر رہے ہیں۔