'مارکس جہاد‘ ایک اور جہاد کا اضافہ
حالات حاضرہ قومی خبریں

‘مارکس جہاد‘ ایک اور جہاد کا اضافہ

قومی دار الحکومت دہلی میں واقع دہلی یونیورسٹی کا ملک کی باوقار یونیورسٹیز میں شمار ہوتا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے تحت 77 کالج ہیں، جن میں مجموعی طور پر تقریباً 70 ہزار طلبہ کو داخلہ دیا جاتا ہے۔ دہلی یونیورسٹی میں داخلہ لینا تقریباً ہر طالب علم کا خواب ہوتا ہے۔

دہلی یونیورسٹی کے کروڑی مل کالج میں فزکس کے پروفیسر راکیش پانڈے نے ایک متنازع بیان دیا جس کی وجہ سے ہنگامہ برپا ہوگیا ہے، جو سیاسی رنگ بھی اختیار کرتا جا رہا ہے۔

پروفیسر راکیش پانڈے نے گزشتہ ہفتے اپنی فیس بک پیج پر لکھا،”ایک کالج میں ایک کورس میں صرف 20 سیٹیں ہیں، لیکن 26 طلبہ کو داخلہ دینا پڑا کیونکہ ان سب نے کیرالا بورڈ سے 100 فیصد مارکس حاصل کیے تھے۔گزشتہ چند برسوں سے کیرالا بورڈ ‘مارکس جہاد کر رہا ہے۔ ”

پ

پروفیسر راکیش پانڈے آر ایس ایس کے رکن ہیں۔ وہ آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کی تنظیم نیشنل ڈیموکریٹک ٹیچرس فرنٹ کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ پروفیسر پانڈے نے کہا کہ کیرالا کے لوگوں نے جس طرح جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) پر ”قبضہ” کر لیا ہے وہ دہلی یونیورسٹی پر قبضہ کرنے کے لیے اسی طرح کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا، ”یہ کیرالا سے دہلی یونیورسٹی میں در اندازی کی کوشش ہے۔ ہم اس رجحان کو پچھلے کئی برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔ کیرالا بورڈ اپنے طلبہ کو بہت زیادہ مارکس دیتا ہے۔ دہلی یونیورسٹی میں داخلے کے لیے کیرالا سے آنے والے تقریباً ہر طالب علم کے پاس 100 فیصد مارکس ہوتے ہیں۔ ایسے میں ہم ان کو داخلہ دینے سے انکار نہیں کر سکتے۔ ان کا داخلہ تقریباً یقینی ہوتا ہے۔”

پروفیسر پانڈے نے مزید کہا،”کیرالا سے آنے والے بیشتر طلبہ انگلش یا ہندی میں بات نہیں کر پاتے ہیں جو کہ دہلی یونیورسٹی میں بنیادی زبان ہے۔ ٹیچر ملیالم بول نہیں سکتے۔ آخر وہ یہاں کیوں آتے ہیں؟ میرے خیال میں یہ ایک سازش ہے۔ وہ یہاں اپنے جہاد اور بائیں بازو کا پروپیگنڈہ پھیلانا چاہتے ہیں۔ کیرالا جہادی اور بائیں بازو کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ اس صورت حال کو روکنے کی ضرورت ہے۔ اسے روکنے کے لیے ہمیں داخلے کی شرائط اور طریقہ کار کو تبدیل کرنا ہو گا۔ ”