شمالی ہند بالخصوص اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کے پیش نظر فرقہ وارانہ واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ مسلم نوجوانوں کو مختلف بہانوں سے گرفتار کیا جارہا ہے۔
ہریانہ کے گروگرام کے سیکٹر 47 میں نماز جمعہ کے دوران کچھ شدت پسند عناصر نے ہنگامہ کیا۔جمعہ کی نماز کے وقت ہندو تنظیم چند مقامی باشندوں کو لے کر وہاں پہنچ گئی اور نماز کی مخالفت کرنے لگے۔ نماز کی مخالفت کرنے والے گروپ میں خواتین بھی شامل تھیں۔ اس دوران مظاہرین نے نعرہ بازی کی اور ’آرتی‘ کا عمل بھی انجام دیا۔ حالانکہ کثیر تعداد میں پولیس کی تعیناتی کے سبب جائے واقعہ پر بغیر کسی خلل کے جمعہ کی نماز ادا کی گئی۔
بتایا جاتا ہے کہ جمعہ کے دن میں تقریباً 12.30 بجے ایک ہندو تنظیم کے کچھ اراکین سیکٹر-47 کے کچھ باشندوں کو لے کر انتظامیہ کے ذریعہ طے شدہ اجتماعی نماز کی ادائیگی کی جگہ پر پہنچ گئے۔ آس پاس کے علاقوں سے تقریباً 60-50 لوگوں کا ایک گروپ اور ایک ہندو تنظیم کے چند لوگ نماز کے وقت ’سکیورٹی‘ اور ٹریفک کا حوالہ دیتے ہوئے کھلی جگہ میں نماز ادا کرنے کی مخالفت کر رہے تھے۔
مقامی باشندہ محمد طاہر نے کہا کہ وہ گذشتہ دو سالوں سے وہاں پر نماز ادا کررہے ہیں، لیکن گذشتہ دو تین ہفتوں سے مذکورہ مقام پر نماز کی ادئیگی کو لے کر اعتراض کیا جارہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ دو تین ہفتوں سے کچھ لوگ یہاں آتے ہیں اور نماز کے دوران خلل پیدا کرتے ہیں اور ہمیں علاقہ خالی کرنے کے لیے کہتے ہیں۔ مصلیان ماسک لارہے ہیں، کووڈ-19 پروٹوکول پر عمل کر رہے ہیں اور امن کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں۔‘
دوسری طرف ایک سینئر پولیس افسر نے کہا کہ کچھ باشندے نماز میں خلل پیدا کرنے کے لیے پہنچے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ یہاں کھلے میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی بند ہو۔ ہم نے انھیں مطلع کر دیا کہ یہ جگہ نماز کے لیے مقررہ کردہ مقامات کی فہرست میں شامل ہے۔