فرانس میں 2004ء میں سرکاری اسکولوں میں اسلامی ہیڈ اسکارف پہننے پر پابندی عائد کردی گئی تھی اور 2010ء میں گلیوں، پارکوں، پبلک ٹرانسپورٹ اور انتظامی عمارتوں جیسے عوامی مقامات پر مکمل چہرے والے نقاب پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
فرانسیسی صدر نے طالبان کو تسلیم کرنے کے لیے یہ شرائط رکھی کہ طالبان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق ادا کرنے کو یقینی بنائیں گے۔ میکرون نے ایک انٹرویو میں کہا کہ عالمی طاقتوں کو طالبان سے کہنا چاہیے وہ اپنے ملک میں نوجوان لڑکیوں کے روشن مستقبل کو یقینی بنائیں اور یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جنہیں ہم فوری طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تمام لڑکیوں کو اسکول واپس جانے کی اجازت نہ دینا ان کے خدشات میں سے ایک ہے۔میکرون نے فرانس انٹر ریڈیو کو یہ بھی بتایا کہ وہ اس ماہ کے آخر میں روم میں ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس میں یہ مسئلہ اٹھائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کو تسلیم کرنے کی دیگر شرائط میں یہ ہونا چاہیے کہ طالبان مسلسل انسانی ہمدردی کی کارروائیوں کی بھرپور امداد کریں۔
یہی فرانسیسی صدر جنہوں نے فرانس میں حجاب پر پابندی عائد کی ہے۔ اور وہ طالبان کو خواتین کے حقوق کا درس دے رہے ہیں۔ جو ان کے لئے مناسب نہیں ہے۔
واضح رہے کہ فرانس میں 2004ء میں سرکاری اسکولوں میں اسلامی ہیڈ اسکارف پہننے پر پابندی عائد کردی گئی تھی اور 2010ء میں گلیوں، پارکوں، پبلک ٹرانسپورٹ اور انتظامی عمارتوں جیسے عوامی مقامات پر مکمل چہرے والے نقاب پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
فرانس میں کئی لڑکیوں اور خواتین اس پابندی پر احتجاجی مظاہرے بھی کیے تھے۔ اس حوالے سے مریم نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ حجاب میری شناخت کا حصہ ہے، مجھے یہ ہٹانے پر مجبور کرنا ذلت کی بات ہوگی۔