جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند پچھلے سوبرس سے ہندستان میں محبتیں بانٹنے کا کام کررہی ہے، وہ اپنا امدادی وفلاحی کام بھی مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیاد پر کرتی اس کی زندہ مثال یہ ہے کہ آج جن بے سہارا لوگوں کو کرناٹک کے مسلمانوں کے تعاون سے مکانات کی چابیاں دی گئی ہیں، ان میں غیر مسلم بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ اس ملک میں صدیوں سے ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان جواتحاد قائم ہے اسے ٹوٹنے نہ دیں، مسلمان ہندوؤں کی خوشی اورغمی میں شامل ہوں ہندوبھائی مسلمانوں کی خوشی اور غمی میں شامل ہوں اس سے ہی سماج اور معاشرے میں یکجہتی اور باہمی اتحادکو فروغ دیا جاسکتا ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ ہم مایوس نہیں ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ جب لوگ بیدار ہوجائیں گے، نفرت ہارے گی اور محبت جیتے گی، واضح ہوکہ سداپور کا علاقہ کیرالا کی سرحد پر واقع ہے، کیرالا میں جب سیلاب آیا تھا تو کرناٹک کے ان علاقوں میں بھی تباہ کن سیلاب آیا تھا۔
کیرالا میں سیلاب متاثرین کی بازآبادکاری کا کام دوسال پہلے ہی مکمل ہوگیا تھا لیکن سداپورمیں زمین کے حصول میں کچھ پریشانی تھی اس لئے بازآبادکاری کے کام میں تاخیر ہوئی درمیان میں کورونا کی وبا آگئی اس سے تعمیر کا کام متاثر ہوا، تاہم جمعیۃعلماء کرناٹک کے ذمہ داران کی مسلسل کوششوں اور یہاں کے مسلمانوں کے تعاون کے نتیجہ میں یہ مشکل مرحلہ طے پاگیا، یہ مکانات چارسواسکوائرفٹ پرمشتمل ہے اور ان کی تعمیر پر فی مکان تین لاکھ روپے (زمین کے علاوہ)لاگت آئی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مہاراشٹرکے سیلاب متاثرین کی بازآبادکاری مہم میں جمعیۃ علماء ہند نے 33بے گھر ہوئے خاندانوں کی بازآبادکاری کے منصوبہ کوحتمی شکل دے دی ہے ان میں 18 غیر مسلم خاندان ہیں، یہاں ایک مکان کی تعمیر پر لاگت کا تخمینہ تقریبا چارلاکھ روپے ہے۔
سیلاب متاثرین کی اس بازآبادکاری مہم میں کرناٹک کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مسلم سوسائٹی سداپورنے خاص طورسے ہرطرح کی مدد فراہم کی، مولانامدنی نے اپنے خطاب میں ذاتی طورپر ان تمام لوگوں کا نہ صرف شکریہ اداکیا بلکہ انہیں اپنی دعاؤں سے بھی نوازا۔