جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی
حالات حاضرہ قومی خبریں

ملک میں اقتدارکے لئے نفرت کی سیاست

جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے کہا کہ ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں کے ذریعہ نہیں بلکہ عرب مسلم تاجروں کے ذریعہ پھیلا جن کے کردار و عمل کو دیکھ کر لوگ متاثر ہوئے اور انہوں نے کسی ڈر اور لالچ کے بغیر اسلام قبول کرلیا۔

مولانا مدنی نے کہا کہ یہ بات سراسر بے بنیاد اور تاریخی طور پر غلط ہے کہ ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں کے ساتھ آیا، ہندوستان میں مسلمان سو دو سو سال سے نہیں بلکہ تیرہ سوسال سے آباد ہیں، مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہندوستان اور عرب کے درمیان اسلام کی آمد سے پہلے سے تجارتی وکاروباری تعلقات رہے ہیں،

البتہ اسلام کی آمد کے بعد کچھ مسلم تاجر عرب سے کشتیوں کے ذریعہ کیرالا پہنچے اور یہیں آباد ہوگئے، ان کے پاس کوئی فوج اور طاقت نہیں تھی بلکہ یہ ان کا کردار اور اخلاق ہی تھا جس سے متاثر ہوکر یہاں کے مقامی لوگوں نے اسلام قبول کرلیا،

انہوں نے یہ بھی کہا کہ تاریخ کی کتابوں میں کیرالا کے ہی کچھ راجاؤں کا بھی ذکر ملتا ہے، جنہوں نے اسلام قبول کیا ایک راجہ کے تعلق سے یہ ذکر بھی ہے کہ اس نے جب شق القمر کا معجزہ دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا اپنے دربارکے نجومیوں سے اس نے اس بابت دریافت کیا تو انہوں نے جو کچھ بتایا اسے سن کر اس کے دل میں عرب جاکر آقاﷺ کی زیارت کرنے کی للک پید اہوئی، چنانچہ اس نے اپنی حکومت کو دوسروں کی نگرانی میں دیکر کشتی کے ذریعہ اپنے سفر کا آغاز کیا لیکن راستہ میں ہی اس کی موت واقع ہوگئی۔

کیرالامیں ہندوستان کی سب سے پہلی مسجد اب بھی موجود ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ محمد بن قاسم کاواقعہ تو اس کے بہت بعد کا ہے، مولانامدنی نے کہا کہ سندھ میں راجہ داہر کی شکست کے بعد جن لوگوں نے محمد بن قاسم سے پناہ طلب کی انہیں پناہ دی گئیں، چنانچہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے مسلمانوں کے اس سلوک سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا، اس کے لئے کسی طرح کی زورزبردستی کی گئی ہواس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے اور پھر یہ بھی ہے کہ زور زبردستی کے ذریعہ کسی کو مسلمان نہیں کیا جاسکتا۔

مولانا مدنی نے آگے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اس ملک کی خصوصیت ہے کہ پچھلے تیرہ سوبرس سے یہاں ہندو و مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ محبت واخوت کے ساتھ رہتے آئے ہیں، لیکن اب کچھ لوگ محبت واتحاد کے اس پختہ رشتے کو توڑ دینا چاہتے ہیں، وہ نفرت اور غلط فہمیوں کو بڑھاوادے رہے ہیں ڈر اور خوف کا ماحول پیداکرکے ایک مخصوص طبقہ کے خلاف محاذ آرائیاں کی جارہی ہیں،

اور اب حالات یہ ہیں کہ کشمیر سے لیکر کنیاکماری تک لوگ ڈراور خوف کے سایہ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ایسے لوگوں کو شاید یہ بات معلوم نہیں ہے کہ یہ ملک اتحاد اور محبت سے ہی آباد رہ سکتا ہے، اور اگر نفرت اور جنگ وجدال کی سیاست کی گئی تو پھر یہ ملک تباہ ہوجائے گا۔

One Reply to “ملک میں اقتدارکے لئے نفرت کی سیاست

Comments are closed.