ایک جمہوری ملک میں عوام کا قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لینا اور حکومت کا اس لاقانونیت پر خاموش تماشائی بنارہنا یہ ایسا رویہ ہے جو ملک کو انتشار اور خانہ جنگی کی طرف لے جارہا ہے۔
نئی دہلی 30 /اگست 2021 آج مرکزی دفتر جمعیۃ علماء ہند کے مفتی کفایت اللہ میٹنگ ہال میں جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلاس زیر صدارت مولانا ارشد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند منعقد ہوا۔ اجلاس میں ملک کے موجودہ حالات اور قانون وانتظام کی بد تر صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور ساتھ ہی دوسرے اہم ملی اور سماجی ایشوز اور لڑکے اور لڑکیوں کے لئے اسکول و کالج کا قیام اورخاص طور پر لڑکیوں کے لئے دینی ماحول میں علیحدہ تعلیمی ادارے کا قیام واصلاح معاشرہ کے طریقہ کار پر تفصیل سے غور و خوض ہوا۔ اس اجلاس میں ممبران نے تمام مسائل پر کھل کر تبادلۂ خیال کیا۔۔
مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ پورے ملک میں جس طرح کی مذہبی اور نظریاتی محاذ آرائی اب شروع ہوئی ہے اس کامقابلہ کسی ہتھیار یاٹکنالوجی سے نہیں کیا جاسکتا اس سے مقابلہ کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے مزین کرکے اس لائق بنادیں کہ وہ اپنے علم اور شعور کے ہتھیارسے اس نظریاتی جنگ میں مخالفین کوشکست سے دوچارکرکے کامیابی اورکامرانی کی وہ منزلیں سرکرلیں جن تک ہماری رسائی سیاسی طورپر محدود اور مشکل سے مشکل تربنادی گئی ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ آزادی کے بعد آنے والی تمام سرکاروں نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت مسلمانوں کو تعلیم کے میدان سے باہر کردیا، یہ افسوسناک صورتحال کیوں پیداہوئی اور اس کے کیا اسباب ہوسکتے ہیں؟ اس پرہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے خودجان بوجھ کر تعلیم سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی،کیونکہ اگر انہیں تعلیم سے رغبت نہ ہوتی تووہ مدارس کیوں قائم کرتے؟
مولانا مدنی نے کہاکہ ہم ایک بار پھر اپنی یہ بات دہرانا چاہیں گے کہ مسلمان پیٹ پر پتھر باندھ کر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں۔ ہمیں ایسے اسکولوں اورکالجوں کی اشدضرورت ہے جن میں مذہبی شناخت کے ساتھ ہمارے بچے اور خاص کر بچیاں اعلیٰ دنیا وی تعلیم کسی رکاوٹ اور امتیازکے بغیر حاصل کرسکیں۔
جمعیۃعلماء ہند کے اس اجلاس میں ہجومی تشدد اور ماب لنچنگ پر اپنی گہری تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا گیا کہ ایک جمہوری ملک میں عوام کا قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لینا اور حکومت کا اس لاقانونیت پر خاموش تماشائی بنارہنا یہ ایسا رویہ ہے جو ملک کو انتشار اور خانہ جنگی کی طرف لے جارہا ہے، اگر ملک میں یہ لاقانونیت یوں ہی بڑھتی رہی تو اس کی آگ میں نہ صرف اقلیتیں، دلت اور ملک کے کمزور عوام ہی نہیں جلیں گے بلکہ ملک کی ساری ترقی اور نیک نامی بھی خاک میں مل جائے گی، اس لئے ہر محب وطن کا ملک سے محبت کا یہ تقاضا ہے کہ مذہب ونسل سے بلند ہوکر مسلم اور غیر مسلم متحد ہوکر اس کے خلاف آواز اٹھائیں،مولانا مدنی نے ماب لنچنگ کے حوالہ سے کہا کہ یہ سب کچھ منصوبہ بندطریقہ سے ہورہا ہے اوراس کا مقصدمذہبی شدت پسندی کو ہوادیکر اقلیت کے خلاف اکثریت کو متحد کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات میں اچانک اس وقت شدت آجاتی ہے جب کسی ریاست میں الیکشن ہونے والا ہوتاہے چند ماہ بعد ملک کی مختلف ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں اس لئے جان بوجھ کر ماب لنچنگ کی جارہی ہے اور شرانگیزیوں میں اضافہ ہورہاہے،انہوں نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا کہ اپنی ساکھ اور ملک کی قدیم تہذیب اور ثقافت کی حفاظت کے لئے اس کے خلاف عملی میدان میں کام کرے اورکہا کہ ماب لنچنگ کے واقعات سپریم کورٹ کی سخت ہدایت کے بعدبھی رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں اس کا صاف مطلب یہ بھی ہوسکتاہے کہ جو لوگ ایسا کررہے ہیں انہیں سیاسی تحفظ اور پشت پناہی حا صل ہے؟ اسی لئے ان کے حوصلے بلند ہیں، اس لئے تمام سیاسی پارٹیاں خاص کر وہ پارٹیاں جو اپنے آپ کو سیکولرکہتی ہیں میدان عمل میں کھل کرسامنے آئیں اور اس کے خلاف قانون سازی کے لئے عملی اقدامات کریں صرف مذمتی بیان کافی نہیں۔
اجلاس میں اس بات پر گہری تشویش کا اظہارکیا گیا کہ ان دنوں آسام میں ایک سازش کی تحت خالص مسلم آبادیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اور جو بستیاں پچاس برس سے زیادہ سے سرکاری زمین پرآباد ہے ان کو جبراًخالی کرایا جارہا ہے اور ان کے مکانا ت منہدم کئے جارہے ہیں ایسے خانہ بربادلوگوں کو بسنے کے لئے کوئی متبادل جگہ بھی نہیں بتائی جارہی ہے، مجلس عاملہ نے طے کیا ہے کہ مذہب سے اوپر اٹھ کر ان حالات سے نمٹنے کے لئے اگر مفید ہوتو سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔
اجلاس میں دہلی فسادات میں بے قصورمسلم نوجوانوں پر کئے گئے 137مقدمات کی پیروی اورپیش رفت پر غورکیا گیا، ابھی تک جمعیۃکے تعاون سے 90ضمانتیں ہوچکی ہیں اورباقی کیسوں کی ضمانت کی اپیل سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ میں داخل ہے، ان مقدمات کی پیروی جمعیۃعلماء ہند کی طرف سے ایڈوکیٹ ظہیرالدین بابر چوہان کی سربراہی میں وکلاء کی ایک ٹیم کررہی ہے۔