ڈاکٹر صادقہ نواب سحر کا216 صفحات پر مشتمل ناول ’راج دیو کی اَمرائی‘ 2019ءمیں شائع ہونے والے اُردو ناولوں میں سے ایک اہم ترین ناول ہے۔
اس سے قبل بھی اُنھوں دو مزید ناول لکھے ہیں: اُن کا پہلا ناول ’کوئی کہانی سناو متاشا‘ 2008ءمیں منظر عام پر آیا تو وہیں دوسرا ناول اس کے چار برس بعد ’جس دن سے‘ 2016ءمیں شائع ہوا۔ان دونوں ناولوں کی کامیابی کے بعد اُنھوں نے تیسرا ناول بھی لکھ ڈالا۔ جس کے لیے وہ یقینا مبارک باد کی مستحق ہیں۔
ڈاکٹر صادقہ نواب سحر کا پہلا ناول’کوئی کہانی سناؤ متاشا ‘کو اُردو دنیا میں بے پناہ مقبولیت ملی اور اس پر انہیں متعدد ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ نیز اس کے تراجم متعدد زبانوں میں شائع ہوئے۔ اگریہ کہا جائے توبے جا نہ ہوگا کہ ’کوئی کہانی سناو متاشا‘ نے ایک نئی ’صادقہ‘ سے اُردو دنیا کو روبرو کرایا ۔
اب ان کے مبارک ہاتھوں کی جنبش نے دنیا کو تیسرے ناول ’راج دیوکی امرائی‘ سے متعارف کرایا ہے، جو کہ یقینا اردو داں طبقہ کے لیے پُر مسرت بات ہے۔
میں نے ڈاکٹر صادقہ نواب سحر کی تخلیقی دنیا کا مطالعہ گہرائی کے ساتھ کیا ہے، ان کی تخلیق میں جدت ہے، مگر ایسی جدت جو روایت کو ساتھ لے کر چلنے والی ہے، یہی سبب ہے کہ ان کی تحریر کو پڑھ کر قاری کچھ دیر کے لیے کھو جاتا ہے ، کیوں کہ صادقہ قاری کو اپنی تحریری کشش سے اس طرح اپنے حصار میں رکھتی ہیں کہ قاری کچھ دیر کے لیے ان کی تخلیقی دنیا کا ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر صادقہ نواب سحر بیک وقت مختلف اصناف میں مضبوطی سے کام کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، ایک طرف وہ شاعری کرتی ہیں، تو دوسری طرف وہ ایک اچھی ڈرامہ نویس ہیں، جہاں ان کے افسانے قاری کو محظوظ کرتے ہیں وہیں ان کا ناول بھی قاری کو اپنے حصار میں باندھنے میں پوری طرح کامیاب ہے۔ غرض کہ وہ ہر صنف میں کامیاب نظر آتی ہیں۔اگرچہ ان کی شناخت ایک فکشن رائٹر کی ہی ہے۔
ڈاکٹر صادقہ نواب سحر کا تازہ ترین ناول’راج دیو کی اَمرائی‘ میں اگرچہ انسانی زندگی سے جڑئی ہوئی مختلف باتوں کی طرف روشنی ڈالی گئی ہے، کہیں قدیم و جدید دور کا تصادم دکھائی دے رہا ہے تو کہیں نئے دور کی چکاچوندھ انسان کو ’حیوانِ کاسب‘ بنانے پر مجبور کر رہی ہے۔تاہم میری نگاہ میں یہ ناول’ رشتوں کی کمشکش کا المیہ‘ ہے،جس کی طرف موجودہ معاشرہ تیزی سے گامزن ہے۔
ناول کہانی کے مرکزی کردار راج دیو کے اِرد گرد گھومتی رہتی ہے، تاہم ناول کو ذیلی عنوانات سے اس انداز سے پیرویا گیا ہے کہ واقعات ایک دوسرے جڑتے چلے گئے ہیں اور قاری کو کہیں پر یہ محسوس نہیں ہوتا کہ تسلسل ٹوٹ رہا ہے۔
یہ ناول اگرچہ راج دیو کے ارد گرد گھومتا ہے مگر اس میں اس کے والدین اوراس کے آبائی گاوں کا سماجی پس منظر بھی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، وہیں راج دیو کے بچوں کی بھی تفصیلات بھی نظر آ جا تی ہیں گویا کہ اس ناول میں ایک ساتھ تین تین نسلوں کی کہانیوں سے قاری روشناس ہوتا چلا جاتا ہے۔
وہیں اس ناول میں سماجی پس منظر اور ترقیاتی سرگرمیوں کا بھی ذکر ملتا ہے، جو کہ جدید ٹکنالوجی اور موبائیل کے اردگرد غلام بنتی ہوئی دنیا میں عنقاہوتی جا رہی ہیں۔
ڈاکٹرصادقہ نواب سحر کہانی کے اندر جس کاچیز کا بھی ذکر کرتی ہیں، اس کے بارے میں تفصیل سے بتاتی چلی جاتی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے ناول تحریر کرنے سے قبل علاقے اور پیشے اور وہاں کے سماجی پس منظر کا مطالعہ گہرائی سے کیا ہے، جگہ جگہ اس کی مثالیں مل جاتی ہیں۔جہاں ضرورت پڑتی ہے ،و ہ جدید اصطلاحات کا استعمال بھی کرتی ہیں۔
راجدیو ایک زندہ دل انسان ہے، وہ بچپن سے کچھ کرگزرنے کا جذبہ رکھتا ہے،اس کے چاچا اگرچہ اس کو ڈاکٹرکی تعلیم دلانا چاہتے ہیں مگروہ ٹیکنیکل کاموں میں دلچسپی لیتا ہے ،جہاں وہ خوب محنت کرتا ہے اور خوب پیسہ کماتا ہے، خوب دولت جمع کرتا ہے، اپنی پسند کی شادی سے کرتا ہے، اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے میں، اپنے بھائیوں کو پڑھانے لکھانے میں کبھی بھی کنجوسی نہیں دکھاتا ،
جہاں بھی ضرورت پڑتی ہے، وہ حاضر رہتاہے، تاہم جس کے ساتھ وہ محبت والی شادی رچاتا ہے ؛وہ یعنی اونتیکا اس سے دور ہوجاتی ہے،وہ اس سے طلاق لینا چاہتی ہے مگر وہ طلاق دینا نہیں چاہتا ، بالآخر دونوں الگ ہو جاتے ہیں، بچے بھی راج دیو کا ساتھ نہیں دیتے ، ماں کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ اونتیکا اس پر جھوٹے مقدمے کرتی ہے، اس کو کورٹ کے چکر لگواتی ہے، مگر راج دیو کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا ہے، کبھی وہ ہار نہیں مانتا ہے، حتیٰ کہ اس وقت بھی نہیں، جب وہ بالکل تنہا ہوجاتا ہے۔
اس ناول میں جدید دور کی بہترین عکاسی کی گئی ہے ،وہیں یہ ناول اس بات سے بھی قاری کو روشناس کراتاہے کہ معاشرہ ایک ایسے دو راہے پر چلا گیا ہے، جہاں رشتوں کی بُری طریقے سے پامالی ہو رہی ہے اور ان پامال رشتوں کو بنوانے سنوارنے یا بچانے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے، کیوں کہ تہذیب کی انتہا کو پہنچ کر انسان مایوس ہوگیا ہے۔
اِس ناول میں اِس جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ کسی کے اوپر اتنانہ انحصار کر لیا جائے کہ اس کے بغیر رہنا مشکل ہوجائے، کیوں کہ بہت دیر تک اور بہت دور تک موجودہ دور کا معاشرہ ساتھ نہیں دے پا رہا ہے، قدریں بُری طریقے سے پامال ہو رہی ہے، اس لیے کہانی کار کی منشا ہے کہ انسان کبھی بھی ہمت نہ ہارے بلکہ وہ ہر حال میں زندگی کی بازی جیتنے کی کوشش کرے کیوں کہ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے، اگرنوبت ایسی آجائے کہ انسان تنہا ہو جائے جب بھی اس کو چاہئے کہ وہ اپنے لیے جیے اور زندہ دلی کے ساتھ جیے ، جیسا کہ راج دیو کا آخری جملہ ہے :میں عجیب سا سکون محسوس کر رہا تھا، اس کی خاموشی سے اپنا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔
آخر میں ، میں اتنا ہی کہوں گا کہ ایک بہترین ناول لکھنے کے لیے ڈاکٹر صادقہ نواب سحر یقینا مبارک باد کی مستحق ہیں، امید کی جانی چاہئے کہ وہ آئندہ بھی مزید اچھی تحریریں اُردو دُنیا کو دیتی رہیں گی اور اردو والے ان سے محظوظ ہوتے رہیں گے۔