جب حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو یقین ہو گیا کہ جبر و استبداد اور ظالم کے آگے اخلاقِ حسنہ کے جواہر پاروں کو قربان کردینا ہوگا تو آپ نے عَلم جہاد بلند کرکے حق کو حق کہنے کی روایت قائم کی، جو پوری انسانی تاریخ میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔
احادیث نبویہ کے مستند اور صحیح مجموعوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی ارشادات پائے جاتے ہیں، جن میں سب سے مشہور حدیث شریف یہ ہے کہ ”حسن اور حسین جوانانِ جنت کے سردار ہیں“۔ اس حدیث شریف سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ جس ذات پاک کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سردار کہہ رہے ہوں، کیا ان کی موجودگی میں کسی اور شخص کے لئے کسی بھی قسم کی سرداری کا دعویٰ زیب دیتا ہے۔
منصب امامت پر بالفرض اگر کوئی دلیل موجود نہ بھی ہو تو تنہا یہ حدیث شریف ہی اثبات مدعی کے لئے کافی ہے۔ اس کے علاوہ دوسری حدیث شریف جو حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے متعلق ہے، بہت مشہور ہے۔ یعنی ”حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں“۔ اس حدیث شریف کو ترمذی نے روایت کی ہے اور امام حنبل نے بھی نقل کیا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے علماء نے بھی معتبر اور صحیح سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے۔
جب حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو یقین ہو گیا کہ جبر و استبداد اور ظالم کے آگے اخلاقِ حسنہ کے جواہر پاروں کو قربان کردینا ہوگا تو آپ نے عَلم جہاد بلند کرکے حق کو حق کہنے کی روایت قائم کی، جو پوری انسانی تاریخ میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔
کربلا کے شہیدوں نے انتہائی نامساعد حالات میں فوز و فلاح کی راہ ڈھونڈ نکالنے کا بہترین نمونہ چھوڑا ہے۔ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے بہتر جاں نثاروں کے ساتھ انتہائی کسمپرسی کے عالم میں لشکر جرار کا مقابلہ کیا اور میدان کربلا میں ایک انوکھی داستان رقم کر گئے۔ فرمان نبوی ہے کہ ظالم حکمراں کے سامنے حق بات کہنا سب سے افضل جہاد ہے۔
سب سے اہم اور سبق آموز بات اس واقعہ میں یہ نظر آتی ہے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو دشمن کی طاقت کا پورا پورا اندازہ تھا، مگر اس کے باوجود انھوں نے اپنی بے سروسامانی اور دشمن کی طاقت کی پرواہ کئے بغیر ان سے مقابلہ کرنے میں ذرہ برابر بھی جھجک نہیں محسوس کی۔ کیونکہ آپ کا اور آپ کی جماعت کا یقین تھا کہ وہی حق پر ہیں اور حق پر ہوتے ہوئے باطل کے سامنے جھک جانا یا اسے تسلیم کرلینا ایک مومن کی شان نہیں ہے۔
آپ کو معلوم تھا کہ یزیدی لشکر سے ٹکراو کا مطلب سوائے موت کے کچھ نہیں ہے۔ ان تمام حقائق کے ساتھ ساتھ ان پر یہ حقیقت بھی واضح تھی کہ یزید کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے کا مطلب اہل بیعت کی شکست نہیں بلکہ حق کی شکست ہے۔
اگر آپ باطل کو تسلیم کرلیتے تو رہتی دنیا تک یہ واقعہ لوگوں کے لئے ایک نظیر بن جاتا اور اگر امت مسلمہ پر ایسا کوئی وقت آن پڑتا اور سخت حالات کا سامنا ہو جاتا تو لوگ اس واقعہ کو دلیل بناکر باطل کے سامنے جھک جاتے۔ ان ہی حالات کے پیش نظر آپ نے اپنی اور اپنے اہل خاندان کی قربانی پیش کرکے اپنی ایمانی حمیت کو دنیا کے سامنے اجاگر کردیا۔
واقعہ کربلا کے جائزہ سے ہمارے سامنے تین رہنما اصول آتے ہیں
(۱) ایمان کی مضبوطی
(۲) سخت سے سخت حالات میں حق پر جمے رہا
(۳) حق کی خاطر اپنی جان و مال اور اولاد کا نذرانہ پیش کرنے میں دریغ نہ کرنا۔
ان اصولوں کی روشنی میں اگر ہم امت مسلمہ کا جائزہ لیں تو حقیقت یہ ہے کہ ہمارے موجودہ مسائل کا حل صرف اور صرف ان ہی تین چیزوں میں مضمر ہے۔ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے جاں نثاروں نے ان ہی تین اصولوں کے ذریعہ ایسی بے مثال تاریخ رقم کی ہے، جہاں پہنچ کر ایک مورخ اپنے قلم کو روکنے اور شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
ہمیں ان اصولوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اسوہ حسینی پر چلنے کے لئے اپنے اندر مذکورہ بالا صفات کو بیک وقت جمع کرنا ہوگا۔ کیونکہ ایمان کی مضبوطی کے بغیر حق پر جمنا ممکن نہیں اور حق پر جمے بغیر اس کیلئے اپنی جان و مال قربان کردینے کا تصور بھی محال ہے۔
اب یہ فیصلہ خود مسلمانوں کو کرنا ہے کہ وہ اس نمونے کو اختیار کرکے اپنے بے شمار مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔اس وقت مقابلہ یزید اور اس کے لشکر سے تھا، آج مقابلہ بے دینی، فیشن پرستی اور مذہب بیزاری سے ہے۔
اس وقت مقابلہ یزید کی حکومت قبول کرنے اور اس کی نااہلی کے آگے سر جھکانے کا تھا، مگر آج مغرب پرستی اور باطل افکار کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے کا ہے۔ جنگ میں شریک حسینی نفوس نے اپنی بے باکی اور ظاہری کمزوری کے باوجود مایوسی اور ناامیدی سے اپنا دامن بچاکر رکھا اور آج ہمیں بھی ہزاروں مسائل و مصائب کے باوجود مایوسی کے مہلک مرض سے خود کو کوسوں دور رکھنا ہوگا۔
لہذا جب مسائل میں یکسانیت ہے تو ان کے حل میں بھی یکسانیت ہونی چاہئے، یعنی امت مسلمہ کو چاہئے کہ قوم کا ہر فرد اپنے اثر و رسوخ اور اپنی استطاعت کے مطابق جو کچھ بھی کرسکتا ہے کرے۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں ہم سب دعا گو ہو جائیں کہ ہماری سوتی آنکھیں جاگ جائیں اور دل ایمانی جذبوں سے مامور ہو جائے۔ (آمین ثم آمین )