حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عدیم النظیر شخصیت کا اندازہ ان کی اس فقید المثال قربانی سے کیا جا سکتا ہے، جو انھوں نے میدان کربلا میں پیش کی۔
حضرت امام عالی مقام کی اس موثر اور عالمگیر قربانی نے مشرق و مغرب میں ہر دل کو مسخر کردیا، کیونکہ آپ نے یہ قربانی توقیر انسانیت کے احیاء کے لئے بڑے خلوص اور سچائی کے ساتھ پیش کی، جس میں آپ کا کوئی ذاتی مقصد نہیں تھا۔ انسانیت کی بھلائی کے لئے جو مقصد آپ کے پیش نظر تھا، وہ اتنا ارفع و اعلیٰ تھا کہ اس سے بڑھ کر کوئی مقصد شعورِ انسانی سوچ نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کربلا کی قربانی میں تسخیرِ قلوب کی بے پناہ طاقت پنہاں ہے۔
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلامی اصول کے تحفظ اور ناناجان صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا احیاء چاہتے تھے۔ آپ جبر و استبداد کے سخت مخالف تھے اور انسانی مساوات، عدل و انصاف اور حریتِ فکر و اظہار کے حامی تھے۔ آپ تاقیامت ظلم و استبداد کے خلاف مظلوموں کے لئے ایک ایسی مثال قائم کرنا چاہتے تھے، جس سے ہر دَور کے مظلوم، ظالم کے خلاف کلمۂ حق کہنے کی حرارت پا سکیں۔
اس وقت کے ماحول پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ جبر و اقتدار نے عوام سے قوتِ احساس اور جراتِ اظہار کو سلب کرلیا تھا۔ حضرت امام حسین ان ہی قوتوں کو بیدار کرنا چاہتے تھے۔ تلوار کے ذریعہ ممالک کو فتح کیا جا سکتا ہے، قومیں غلام بنائی جا سکتی ہیں، مگر کسی قوم کے مردہ احساسات میں جان نہیں ڈالی جا سکتی۔
لہذا امام حسین نے قوت کا مقابلہ کردار سے، ظلم کا مقابلہ مظلومیت سے اور اکثریت کا مقابلہ اقلیت سے کیا۔ یہ وہ طریقۂ جنگ تھا کہ جس نے احساساتِ مردہ میں جان ڈال کر یزیدی سلطنت اور یزیدی فکر کے حامل افراد کا خاتمہ کردیا۔
آپ کا مقصد اگر اقتدار کا حصول ہوتا تو آپ فوج جمع کرتے، ہتھیار کا ڈھیر لگاتے اور میدانِ کارزار میں توانا جسم اور مضبوط بازووں پر بھروسہ کرتے، مگر یہ تو انقلابِ ذہنیت کی جنگ تھی، یہاں جسم نہیں دل فتح کرنے تھے۔ یہاں کسی خاص شخص کا تختہ نہیں الٹنا تھا، بلکہ تا قیامت ذہنوں کو بدلنا مقصود تھا۔ شہروں کو تاراج اور ویران کرنا مقصود نہیں تھا، بلکہ دل و دماغ کو بیدار اور روشن کرنا تھا۔
جب مقصد انقلاب ہو تو پھر صرف جوان و توانا سپاہیوں کی ہی نہیں، بوڑھے، جوان، مرد، عورت، حتیٰ کہ بچوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ کربلا کے واقعہ میں آپ کو یہ سارے کردار بھرپور کار کردگی کے ساتھ ملیں گے۔ عورتوں اور بچوں کو ہمراہ لے کر چلنا اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ آپ کا مقصد حصولِ سلطنت نہیں، بلکہ کوئی خاص مقصد تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر یہ عورتیں اور بچے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ نہ ہوتے تو مقصد حسینی کربلا ہی میں دفن ہو گیا ہوتا اور واقعہ¿ کربلا اپنی بھرپور حرارت کے ساتھ تحریک بن کر ہم تک نہ پہنچتا۔
واقعۂ کربلا میں ایثار و مواسات، ہدایت و صداقت، جرات و حریت، عزم و استقلال، نظم و ضبط، صبر و رضا اور شجاعت کا رنگ جس شان سے مردوں نے بھرا، اسی شان سے عورتوں نے بھی بھرا اور ثابت کردیا کہ میدانِ کربلا میں ہدایت و تبلیغ کا فریضہ صرف مردوں نے ہی انجام نہیں دیا، بلکہ صنف نسواں نے بھی تباہیوں اور آفتوں کے اس طوفان میں جو یزیدی فوج کی صورت میں کربلا کے مجاہدین پر چھایا ہوا تھا، رشد و ہدایت کے وہ موتی بکھیرے کہ جس کی تابندگی ابد الآباد تک باقی رہے گی۔
خواتین کے لئے عموماً یہ تاثر ہے کہ وہ سخت حالات میں ہمت ہار بیٹھتی ہیں، مگر کربلا کے میدان میں ہر بی بی عزم و ہمت کی چٹان بنی ہوئی تھی۔ پے در پے مظالم سہنے اور لخت جگر کی جدائی کے داغ سہنے کے باوجود کسی خاتون نے امام عالی مقام سے یہ نہ کہا کہ آپ یزید کی بیعت کیوں نہیں کرلیتے؟ بلکہ ہر ایک کا عزم آپ کے حوصلے میں تقویت کا باعث بنتا۔ بھوکا پیاسا رہنا گوارہ کیا، عزیزوں کے لاشوں پر صبر کیا، مگر مقصد حسینی سے انحراف کا ادنیٰ سا واقعہ بھی رونما نہ ہوا۔
یہ مقصد حسینی پر ان مستورات کے غیر متزلزل ایمان کا ثبوت ہے کہ اپنی مامتا کو بھی حضرت امام عالی مقام کے قدموں پر قربان کردیا۔
مجاہدوں کے حوصلے بڑھائے اور انھیں موت کے لئے تیار کیا۔ مائیں جو بیٹوں کی زندگی کی دعائیں مانگتی ہیں، کربلا کے میدان میں دینِ حق کی راہ میں قربان ہونے کی وصیت کرتیں اور ان کی شہادت پر سجدۂ شکر بجالاتیں۔
غیر معمولی حالات میں اچھے بھلے مرد حواس کھو بیٹھتے ہیں، مگر اطاعتِ خدا و رسول اور حکم امام عالی مقام سے سرِمو انحراف کا تصور نہ تھا۔ قیامت کے اس عالم میں بھی پردے کی پابندی، نماز کی ادائیگی اور نوافل سے دلچسپی یوں ہی برقرار تھی۔
یہ خواتین عزم و ہمت کی چٹانیں تھیں، جن سے بحر ظلم کی لہریں سر ٹکرا ٹکراکر پلٹ جاتیں۔ شوہروں، بھائیوں اور بیٹوں کی لاشوں پر بھی حمد و شکر کے ترانے اور امت کی ہدایت کی دعائیں تھیں۔ بس ایک ہی لگن تھی کہ شریعت الہٰی اور سیرت رسول کی حفاظت، انسانیت کی بھلائی اور مقصد حسینی کی تکمیل ہو۔
ان مستورات کی استقامت، ان کا غیر متزلزل ارادہ، ہر نوع کے مصائب و تکالیف پر صبر، انھیں زندہ جاوید بنا دینے اور مجاہدین میں شمار کرنے کے لئے کافی ہے۔