اہلِ بیتِ اَطہار کی محبت واجب ہے”فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور اللہ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)“۔
اللہ رب العزت کا شکر ہے کہ جس نے ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امت میں شامل فرمایا اور اپنی بندگی، عبادت اور طاعت کے ساتھ ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی غلامی اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت کے رشتے میں منسلک کیا۔ آقا علیہ السلام کی محبت کے باب میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کچھ مظاہر بنائے ہیں اور اہل بیت اطہار اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کی محبت کو اہم ترین مظاہرِ ایمان اور مظاہرِ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں شامل فرمایا ہے۔
حضور علیہ السلام نے اپنی قرابت اور اپنی اہل بیت اطہارؓ کی محبت کو ہمارے اوپر فرض و واجب قرار دیا ہے اور یہ وجوب مذکورہ حکم الہی سے ثابت ہے۔حضور علیہ السلام نے تبلیغ رسالت کے ذریعے ہم پر جو احسان فرمایا اس پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہم سے کوئی اجر طلب نہیں فرمایا سوائے اِس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اہل بیت اطہارؓ اور قرابت سے محبت کریں۔
یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قرابت سے محبت کا جو حکم دیا، یہ اجر بھی آقا علیہ السلام بدلہ کے طور پر اپنے لئے طلب نہیں فرما رہے بلکہ یہ بھی ہمارے بھلے کے لیے ہے۔ اِس سے ہمیں ایمان و ہدایت کا راستہ بتار ہے ہیں، ہمارے ایمان کو جِلا بخش رہے ہیں اور اہل بیت و قرابت کی محبت کے ذریعے ہمارے ایمان کی حفاظت فرما رہے ہیں۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس فرمان کے ذریعے ہماری ہی بھلائی کی راہ تجویز فرما رہے ہیں۔
اہلِ قرابت کون ہیں؟
اہل بیت کی عظمت و شان میں بہت سی آیات ہیں، مگر ان کی محبت کا ہم پر فرض ہونا مذکورہ آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے۔ جملہ ائمہ نے اس آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ اس آیت میں جن کی محبت فرض کی گئی ہے وہ قرابتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
حضرت سعید ابن جبیر رضی اللہ عنھما اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضور علیہ السلام سے پوچھا گیا:”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم! آپ کی قرابت والے وہ کون لوگ ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: علی، فاطمہ، اور اس کے دونوں بیٹے (حسن اور حسین) l“۔
امام احمد بن حنبل روایت فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ”جب مذکورہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل قرابت سے کون لوگ مراد ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: علی، فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے رضی اللہ عنہم۔ یعنی صحابہ کرام کے پوچھنے پر آقا علیہ السلام نے اس آیت مبارکہ کی خود تفسیر کی اور امت پر واضح فرمادیا کہ ان پر کن کن کی مودت اور محبت واجب و فرض ہے۔آقا علیہ السلام نے فرمایا:یعنی اللہ سے محبت کرو اِس وجہ سے کہ اس نے تمہیں بے شمار نعمتوں سے مالا مال کیا، وہ تم سے محبت کرتا ہے، تم پر شفقت، بے حساب رحمت، کرم اور لطف و عطاءفرماتا ہے۔
صبح و شام تم اس کی نعمتوں اور رحمتوں کے سمندوں میں غوط زن رہتے ہو، تم پر اللہ کی نعمتوں کی موسلا دھار بارش رہتی ہے، اِس کی وجہ سے اللہ سے محبت کیا کرو۔پھر فرمایا: اور مجھ سے محبت کرو اللہ کی محبت کی وجہ سے، اس لئے کہ اللہ کی محبت میری محبت کے بغیر نہیں ملتی۔ میری محبت ہی اللہ کی محبت کا راستہ، واسطہ، ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ لہذامجھے سے محبت کرو، تاکہ تم اللہ سے محبت کر سکو۔
گویا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اللہ کی محبت کا راستہ بتایا ہے۔اور پھر فرمایا:میری اہل بیت سے محبت کرو تاکہ تمہیں میری محبت مل سکے۔ میری محبت کے حصول کے لئے میری اہل بیت سے محبت کرو اور اللہ کی محبت کے حصول کے لئے مجھ سے محبت کرو۔
حسنین کریمینؓ سے محبت میں امت کیلئے پیغام :۔
حسنین کریمین رضی اللہ عنھما سے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم والہانہ محبت کا اظہار فرماتے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حسنین کریمین سے محبت کا والہانہ و بے ساختانہ اظہار بغیر کسی مقصد کے تھا؟ نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ اس والہانہ اندازِ محبت میں بھی امتِ مسلمہ کے لئے ایک پیغام ہے۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام ایک روز سیدنا امام حسین کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر چل رہے تھے تو ایک شخص نے دیکھا تو دیکھتے ہی اس نے کہا اے بیٹے مبارک ہو، کتنی پیاری سواری تمہیں نصیب ہوئی ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تمہیں سواری کا اچھا ہونا نظر آرہا ہے مگر یہ بھی تو دیکھو کہ سوار کتنا پیارا، خوبصورت اور اعلیٰ ہے۔
یہاں ایک نکتہ کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ حدیث مبارکہ سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ یہ واقعہ گھر کے اندر کا نہیں ہے۔ یعنی گھر کی چار دیواری کا نہیں بلکہ باہر کا ہے، اسی لئے ایک غیر شخص آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس عملِ مبارک پر اظہار خیال کررہا ہے۔
اِس کا مطلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو گلی میں لے کر چل رہے تھے۔اب ایک طرف آقا علیہ السلام کے مرتبہ، شان، عظمت، جلالت اور قدر بھی ذہن میں رکھیں اور یہ عمل بھی دیکھیں۔ ہم یہ کام نہیں کرتے، اپنا بیٹا ہو، پوتا ہو، نواسا ہو، نواسی ہو، جس سے بہت پیار ہو، اسے کندھے پر اٹھا کر گلی میں نہیں چلتے بلکہ شرماتے ہیں حالانکہ یہ سنت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں ایک حقیقت بھی بیان فرمائی اور ایک دعا بھی دی۔ حقیقت یہ ہے کہ جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے، اللہ اس سے محبت کرتا ہے اور اِس میں آقا علیہ السلام نے دعا بھی کی کہ اللہ اس سے محبت کر جو میرے حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے۔
ائمہ کرامؒ کی محبتِ اہلِ بیتؓ :۔
امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ اہل بیت سے اتنی شدید محبت کرتے اور ائمہ اطہار اہل بیتؓ کی اتنی تکریم کرتے کہ لوگوں نے ان پر شیعہ ہونے کا طعنہ کیا اور ان کو شیعہ کہتے۔ اگر محبت اہل بیت کی وجہ سے امام اعظم ابو حنیفہ شیعہ ہو گئے تو پھر سنی کو ن بچا ہے؟ ۔
امام شافعیؒ کو بھی محبت اہل بیت کی وجہ سے لوگ شیعہ اور رافضی کہتے تھے۔ آپ نے جواب میں فرمایا: اگر محبت اہل بیت کا نام شیعہ ہونا ہے تو مجھے یہ تہمت قبول ہے۔ اگر امام شافعی شیعہ ہیں تو پھر باقی سنی کون بچا ہے؟امام مالک رحمة اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کی اہل بیت اطہار کے لیے بڑی تعظیم وتکریم تھی۔
اللہ رب العزت ہمیں اہل بیت اطہار کی محبت و تمسک عطا فرمائے، ان کے طفیل آقا علیہ السلام کی محبت تک پہنچائے اور آقا علیہ السلام کی محبت کے صدقے سے اللہ تعالیٰ اپنی محبت عطا کرے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔