یوم حقوق مسلم خواتین
حالات حاضرہ قومی خبریں

مودی حکومت کا ’یوم حقوق مسلم خواتین‘ ایک دھوکہ

مودی کی زیر قیادت مرکزی حکومت نے یکم اگسٹ کو ’’ یوم مسلم خواتین‘‘ منانے کا اعلان کیا ہے۔ مودی حکومت نے یکم اگست 2019 کو ‘ طلاق ثلاثہ یا طلاق بدعت’ کو قانونی جرم قرار دیا تھا۔

بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں رام مندر کی تعمیر، جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کی منسوخی کے ساتھ ساتھ تین طلاق کو ختم کرنا شامل کیا تھا۔
بی جے پی تین طلاق کو ختم کرکے مسلم خواتین میں خود انحصاری، خود اعتمادی اور عزت نفس کو مضبوط بناکر آئینی، بنیادی جمہوری اور مساوی حقوق کو یقینی بنانا چاہتی تھی۔

بی جے پی اور بی جے پی کے نام لیوا نام نہاد مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ بی جے پی نے تین طلاق کو ختم کرکے مسلم خواتین کو انصاف دلایا ہے۔ انہیں ان کے جمہوری آئینی اور مساوی حق دیا ہے۔ کیا صرف تین طلاق کے ختم ہونے سے مسلم خواتین کو انصاف مل گیا ہے؟

بی جے پی حکومت نے ’یوم مسلم خواتین’ کے نام سے دن کا آغاز کیا۔ بی جے پی حکومت کہاں تھی اس وقت جب سینکڑوں مسلم خواتین جن میں کمسن بچیوں سے لیکر شاہین باغ کی دادی تک موجود تھی، شاہین باغ میں 100 دن تک 24X7 بیٹھی رہیں؟ کیا بی جے پی کو اس وقت مسلم خواتین کے لئے انصاف، فلاح وبہبود یاد نہیں آئی؟ کیا کسی دن بی جے پی یا کسی بی جے پی لیڈر نے ان مسلم خواتین سے پوچھا کہ آخر آپ 24 گھنٹوں یہاں پر کیوں بیٹھیں ہیں؟

اگر بی جے پی واقعتا مسلم خواتین کو انصاف دینا چاہتی تو ملک بھر میں ہزاروں بیوہ اور مطلقہ خواتین موجود ہیں جن کا کوئی سہارا نہیں ہے۔ انہیں حکومت کوئی پینشن جاری کرتی یا انہیں کوئی سرکاری اسکیم کے تحت مدد کرتی۔

نیشنل کمیشن آف وومین کی رپورٹ ‘وائس آف دی وائس لیس’ میں ہندوستان میں مسلم خواتین کی حالات زار کو کھل کر بیان کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں جو حالت مسلم خواتین کی ہے وہ کسی اور طبقہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کی نہیں ہے۔ اس رپورٹ میں حکومت کے تمام دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔

بی جے پی نے ان مسلم خواتین کے بارے میں کبھی نہیں سوچا جن کے نوجوان بچے بلا وجہ گرفتار کرلیے گئے اور وہ برسوں بغیر کسی جرم کے جیل میں بند رہے۔ وہ مائیں انصاف کے لئے تڑپتی رہیں لیکن انہیں کوئی انصاف نہیں ملا۔

بی جے پی نے ان مسلم ماؤں کے انصاف کے بارے میں کبھی نہیں سوچا جن کے نوجوان بیٹوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کردیا گیا۔ ان مسلم بیویوں کے بارے میں نہیں سوچا جن کے شوہروں کو ہجومی تشدد کا شکار بنایا گیا۔ ابھی تک اخلاق کے قاتل آزاد گھوم رہے ہیں۔ ابھی تک ہریانہ کے جنید کی ماں انصاف کی منتظر ہے۔ راجستھان کے رکبر خان کے اہل خانہ انصاف کے لئے در در بھٹک رہے ہیں۔

مسلم نوجوان صرف شک کی بنیادوں پر جیلوں میں برسوں سے قید ہیں۔ شرجیل امام، عمر خالد، صدیق کپن، اور ایسے ہی نہ جانے کتنے مسلم نوجوان بغیر کسی وجہ کے قید و بند صعوبتیں برداشت کررہے ہیں اور ان کے اہل خانہ بالخصوص ان کی مائیں بہن بیٹیاں، بیویاں انصاف کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔

ملک میں 2014 میں جب سے بی جے پی حکومت اقتدار میں آئی ہے مسلم خواتین تو درکنار ہندوستان کی عام خواتین خود انحصاری، خود اعتمادی اور عزت نفس، آئینی، جمہوری اور مساوی حقوق سے کوسوں دور ہیں۔ ملک میں کمسن بچیوں سے لیکر 80 سال کی بوڑھی خواتین تک محفوظ نہیں ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہندوستان اب خواتین کے ليے محفوظ نہیں ہے، تو بیجا نہ ہوگا۔ تین سال کی بچی سے لے کر 80 سال کی معمر خاتون تک جنسی درندوں کی خوراک بن چکے ہیں۔

سرور بارہ بنکوی نے کیا خوب کہا !

یہی لوگ ہیں، ازل سے جو فریب دے رہے ہیں
کبھی ڈال کر نقابیں، کبھی اوڑھ کر لبادہ