آئس کریم کے خلاف اسرائیل کی جنگ
جموں و کشمیر مسلم دنیا

امریکی آئس کریم ‘بین اینڈ جیری’ کے اسرائیل کا شدید رد عمل

آئس کریم بنانے والی امریکی کمپنی بین اینڈ جیری کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں قائم اسرائیلی آبادیوں میں آئس کریم بیچنے سے انکار کے بعد اسرائیل کے وزیر اعظم نے کمپنی کے خلاف ’سخت کارروائی‘ کی دھمکی دی ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینٹ نے آئس کریم بنانے والے کمپنی کی مالک امریکی کمپنی یونی لیور کو انتباہ دیا کہ اس کو قانونی اور دیگر نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف اسرائیل کے امریکہ میں سفیر نے امریکہ کی درجنوں ریاستوں کے گورنرز سے مطالبہ کیا کہ وہ آئس کریم کمپنی کے خلاف ریاستوں کے اسرائیل کے بائیکاٹ کے خلاف قوانین کو استعمال کریں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیل کی جانب سے یہ سخت ردعمل اس خدشے کے تحت ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مستقبل میں مزید کمپنیاں ’بین اینڈ جیریز‘ کی طرح اسرائیل میں کاروبار کرنے سے انکار کر سکتی ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے بتایا کہ وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے ’بین اینڈ جیریز‘ کی پیرنٹ کمپنی یونی لیور کے چیف ایگزیکٹو ایلن جوپے سے بات کرتے ہوئے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے اور اسے اسرائیل مخالف قدم قرار دیا۔ دفتر کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ اس اقدام کے سنگین قانونی اور دیگر نتائج ہوں گے اور اسرائیل اپنے شہریوں کے بائیکاٹ کے خلاف سختی سے ردعمل دے گا۔

بین اینڈ جیری نے کہا تھا کہ غرب اردب اور مشرقی یروشلم میں ان کی اشیاء کی فروخت ان کی ’اقدار کے مطابق نہیں ہے۔‘ کمپنی نے کہا تھا کہ اگر وہ اس آئس کریم کو خریدنا چاہتے ہیں اسرائیلی علاقوں سے خرید سکتے ہیں۔ فلسطینی کارکنوں نے اس فیصلہ کو بہت پسند کیا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں سنہ 1967 کی جنگ کے نتیجے میں غرب اردن اور مشرقی یروشلم پر اسرائیل قبضے کے بعد وہاں قائم ہونے والی 140 اسرائیلی آبادیوں میں تقریباً چھ لاکھ کے اسرائیلی رہتے ہیں۔ زیادہ تر عالمی برادری ان اسرائیلی بستیوں کو بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی سمجھتی ہے تاہم اسرائیل اس بات سے متفق نہیں۔
( بشکریہ بی بی سی اردو)