ٹوکیو اولمپکس: اسرائیلی کھلاڑی سے مقابلہ کرنے سے انکار
جموں و کشمیر

ٹوکیو اولمپکس: اسرائیلی کھلاڑی سے مقابلہ کرنے سے انکار

الجزائر کے کھلاڑی فتحی نورین کا کہنا تھا کہ ہم اولمپکس تک پہنچنے کے لیے بے حد محنت کرتے ہیں لیکن فلسطین کے مسائل اس سب سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔

 

کھیلوں کا سب سے بڑا مقابلہ اولمپکس ان دنوں جاپان کے دار الحکومت ٹوکیو میں کھیلا جارہا ہے۔ دنیا کے 205 ممالک کے کھلاڑی یہاں ایک دوسرے کو شکست دے کر میڈلز جیتنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔

 

ویسے اس اولمپکس میں پہنچنے والے یہ کھلاڑی پچھلے 4 سالوں میں بہت سے مقابلوں میں اپنے خون اور پسینے کو بہانے کے بعد یہاں پہنچے ہیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ تمغہ چھوڑنا ، اولمپکس میں حصہ لینا ایک کامیابی ہے۔ لیکن کچھ کھلاڑیوں کے لیے اس کامیابی سے بھی زیادہ اہم فلسطین کی حمایت کرنا ہے۔

 

ٹوکیو اولمپکس کے جوڈو مقابلے کے دوران سوڈانی کھلاڑیوں نے ایک اسرائیلی کھلاڑی سے مقابلے کرنے سے انکار کردیا۔ در حقیقت پیر کے روز سوڈان کے محمد عبد الرسول کو جوڈو میں مردوں کے 73 کلو وزنی کیٹگری میں اسرائیل کے توہر بٹبل کا مقابلہ کرنا تھا۔ لیکن سوڈانی کھلاڑی نے کھیل سے انکار کردیا۔

 

یہ اسرائیل کے توہر بٹبل کے ساتھ دوسری بار ہوا۔ اس سے قبل 25 جولائی کو توہر بٹبل کا میچ الجیریا کے فتحی نورین کے ساتھ ہونا تھا ، لیکن فتحی نورین نے اسرائیلی کھلاڑی کا مقابلہ کرنے کے بجائے اولمپکس سے دستبرداری کا فیصلہ کیا۔

 

نورین کا کہنا تھا کہ ہم اولمپکس تک پہنچنے کے لیے بے حد محنت کرتے ہیں لیکن فلسطین کے مسائل اس سب سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔

 

اسرائیلی کھلاڑی کے ساتھ دو کھلاڑیوں کے کھیلنے سے انکار کی وجہ فلسطین کی حمایت ہے۔ در حقیقت اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کشیدگی کے معاملے میں دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ کچھ ممالک اسرائیل، یہودیوں کے ملک کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ کچھ مسلم ممالک فلسطین کی حمایت کرتے ہیں۔

 

یہ پہلا موقع نہیں جب نورین نے کسی اسرائیلی حریف کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے مقابلے سے دستبرداری اختیار کی ہے۔ وہ اس سے پہلے ٹوکیو میں 2019ء میں منعقدہ جوڈو کی عالمی چیمپئن شپ میں بھی اسرائیلی ایتھلیٹ سے اسی سبب کی بنا پر مقابلے سے دستبردار ہوگئے تھے۔

 

واضح رہے کہ ماضی میں ایران اور مصر سمیت دیگر ممالک کے کھلاڑی اور ایتھلیٹس بھی عالمی مقابلوں میں اسرائیلی کھلاڑیوں کے خلاف کھیلنے سے انکار کرچکے ہیں۔

 

حال ہی میں امریکی آئس کریم کمپنی ’بین اینڈ جیری‘ نے فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں آئس کریم فروخت کرنے سے انکار کردیا۔ کمپنی نے کہا تھا کہ یہ کمپنی کے اقدار کے خلاف ہے۔ اگر یہودی اس آئس کریم کو خریدنا چاہتے ہیں تو اسرائیل کے علاقوں سے خرید سکتے ہیں۔