قربانی بڑا ہی مقدس اور با برکت لفظ ہے۔اس میں بڑی وسعت اور گہرائی ہے۔ اس کا رشتہ انسانی زندگی سے اتنا مضبوط اور گہرا ہے کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے ،جتنی کہ انسانی وجود کی تاریخ۔اس سے بخوبی یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ہماری زندگی میں اس کی کتنی بڑی اہمیت ہے۔
قربانی ہر زمانے میں دنیا کی تمام قوموں کا شعار رہا ،لوگ مختلف زمانوں میں مختلف طریقے اور ڈھنگ سے اس مقدس عبادت پر عمل پیرا رہیں،اور اسے اپنا وظیفہ زندگی بنایا۔
حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر قربانی کا جو سلسلہ شروع ہوا تو کبھی منقطع نہیں ہوا، بلکہ یہ سلسلہ صدیوں سے جاری و ساری رہا۔ کتنی تہذیبیں اسی کے دم سے وجود میں آئیں۔ کتنے اہل وفا اس راہ کی خاک چھانتے رہے۔کتنوں نے اس پر اپنی عمریں کاٹ دیں۔ساری عبادتیں ہوتی رہیں، سارے طریقے انجام پاتے رہے، صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اس مقدس عمل کا عالمی ابدی اور ہمہ گیر پیغام دنیا کے سامنے آنا ابھی باقی تھا۔اس کے اسرار اور حقائق سے پردے اب بھی نہ اٹھ سکے۔
اس عظیم الشان کام کو انجام دینے کے لئے اللہ نے ایسی ہستی کا انتخاب فرمایا جو سب کے نزدیک مسلم بلکہ قابل تقلید تھی جس سے قربانی کا لاثانی پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قربانی کو پانے تکمیل تک پہنچانے کے لئے ایسا انوکھا حیرت انگیز طریقہ اپنایا، جہاں عقل و خرد کی رسائی ممکن نہیں۔ اور دنیا کی تاریخ میں اس کی کوئی سند پیش کرنے سے قاصر تھی۔غور کیجۓ اتنے عظیم نازک جان گسل کام کے لئے محض ایک خواب کا سہارا لیا گیا۔
اس میں کمال اظہار بندگی اطاعت و تابعداری تسلیم و رضا عشق حقیقی اور فنائیت کا امتحان تھا۔
یہ خلیل الرحمٰن ہی کا دل تھا جس نے ایک اشارہ پاتے ہی اپنی زندگی کے بیش قیمت سرمایہ کو قربان کرنے کے لئے دل و جان سے تیار ہو گۓ۔ اور اپنے مالک کے حضور اپنا سر تسلیم خم کر دیا۔
آپ نے بندگی کی ایسی مثال قائم کردی اور محبت کی ایسی ڈگر کھول دی جہاں تک رسائی کے بغیر عبودیت مکمل نہیں ہو سکتی۔ عبودیت کی یہی معراج ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو رہتی دنیا تک کے لیے جاری فرمادیا
ارشاد ہوتا ہے۔ "فلما اسلما و تلہ للجبین نادینہ ان یا ابراھیم قد صدقت الرءیا اناکذالک نجزی المحسنین ان ھذا لھو البلو المبین و فدینہ بذبح عظیم وترکنا علیہ فی الآخرین سلام علی ابراھیم۔”
دوسرے موقع پر ارشاد باری تعالیٰ ہے
"قد کان لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراھیم والذین معہ”۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی تمہارے لئے سب سے اچھا اسوہ ہے۔
اللہ کا کرم اور نوازشات دیکھیۓ ،اس عمل کو ہمارے لئے کس قدر آسان بنا دیا کہ اس کی جگہ جانور کو قربان کرنے کا حکم دیا۔
قربانی ہی ایک ایسا عمل جو پورا کا پورا جیتی جاگتی تصویر کی شکل میں پیش کیا گیا ،کوئی بھی چیز پردے کے پیچھے نہیں چھوڑی۔ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ساری عبادات کی روح اور اس کا فلسفہ قربانی ہے۔
( بشکریہ ای ٹی وی بھارت)