عیدالاضحیٰ سنت ابراہیمی کا احیاء واعادہ اور خراج عقیدت ہے جس طرح عید الفطر ماہ رمضاں کا شکرانہ ہے۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اکرمؐ سے صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ قربانی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے”۔
حضرت ابراہیمؑ کی یہ وہ عظیم لاشان قربانی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بہت ہی عظیم قرار دیا ہے۔”اور ہم نے ندا دی کہ "اے ابراہیمؑ۔ تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی”۔ اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا”۔
اس قربانی کو عظیم قرار دینا، اس کی یاد میں اس عمل کو جسے اللہ تعالیٰ نے سنت ابراہیمی کہا ہے مسلسل عیدالاضحیٰ کے دنوں میں دہرایا جانا، خوشی کے لمحات اور عید سعید کو ان دنوں میں منایا جانا یہ سب عظیم قربانی کی وجہ سے ہے۔
یہ قربانی عظیم اس لئے قرار دی گئی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے حکم الٰہی کی تعمیل میں اپنے جگر گوشے کو پیش کردیا تھا۔اس عمل کو آنکھیں دیکھ نہ سکتی تھیں کیونکہ ان پر اس وجہ سے پٹّی باندھ لی گئی تھی تاکہ محبت پدری ہاتھوں کو لرزا نہ دے۔ دل حکم الٰہی کی تعمیل میں سجدہ ریز تھا، زبان ذکر میں مشغول تھی اور ہاتھ اطاعت وفرمابرداری میں مصروف تھا۔ چھری چلی، خون بہااور قربانی دیدی گئی ۔ آنکھوں پر پٹّی باندھے حضرت ابراہیمؑ کو کب معلوم تھا کہ ان کے ہاتھوں ذبح ہونے والی جان بیٹے کی نہیں دمبے کی ہے جسے اللہ نے بیٹے کی جگہ بدل دیا اور ان کی چھری بیٹے کے بجائے دمبے کی گردن پر چلی ہے۔
حضرت ابراہیمؑ نے پورے ہوش وحواس اور عزم وارادے کے ساتھ اپنے بیٹے اسمٰعیل کو ذبح کیا تھا۔ یہی وہ ‘ کھلی آزمائش’ تھی جس میں حضرت ابراہیمؑ پورے اترے تھے۔ بڑے امتحان میں حاصل ہونے والی کامیابی بھی بڑی ہوتی ہے اور اس پر ملنے والا انعام بھی غیر معمولی ہوتا ہے۔ اللہ کو یقینا اسمٰعیل کی قربانی لینا مقصود نہ تھا، مقصد تو امتحان تھا جس میں وہ کامیاب ہوگئے ۔
ادھرکامیابی ملی ادھر اس کا انہیں انعام بھی ملا کہ ” ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا”۔ نبی ؑ کی فرمابرداری اور نبی زادہ کی سعادت مندی اللہ کے یہاں اس پائے کو پہنچی کہ قیامت تک کے لئے یاد گار بنا دی گئی۔ یہی نہیں بلکہ اس عمل کو سنت براہیمی قرار دیدیا گیا اور امت محمدیہ میں اسے جاری کردیا گیا۔ "قیامت تک کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سنت جاری کردی کہ اسی تاریخ کو تمام اہل ایمان دنیا بھر میں جانور قربان کریں اور وفاداری وجاں نثاری کےاس عظیم الشان واقعہ کی یاد تازہ کرتے رہیں”(تلخیص تفہیم القرآن)
عیدالا ضحیٰ کے موقع پر قربانی کے دنوں میں امت محمدیہ کے ہر صاحب حیثیت کے لئے لازم ہے کہ وہ سنت براہیمی پر عمل پیرا ہو۔ اللہ کے حضور عہد کرے کہ اس کا جانور کی قربانی دینے کا عمل اس بات کے اظہار کے لئے ہے کہ جب جب جس نوعیت اور جس سطح کی قربانی دینے کی ضرورت پیش آئے گی وہ کبھی بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ جو صاحب حیثیت نہیں ہیں ان سے بھی یہ عمل تقاضہ کرتا ہے وہ بھی ہمہ وقت ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے خود کو تیار رکھیں ۔
قربانی کے گوشت کو اعزاء واقرباء، دوست واحباب ، قرب وجوار اور غرباء ومساکین میں تقسیم کرنے کا عمل بھی ایک خاص حکمت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جس طرح صدقۂ فطر کی ادائیگی سے پوری امت عیدالفطر کی خوشیوں میں اور گوشت کو تقسیم کرکے عید الاضحیٰ کی خوشیوں میں شریک ہوتی ہے اسی طرح اطاعت و فرمابرداری، جاں نثاری اور قربانی میں بھی پوری کی پوری امت شریک اور ایک دوسرے کی معاون ومدد گار ہے۔ وقت پڑنے پر قربانی دینے میں رخصت نہیں عزیمت سے کام لیا جائے گا اور یہ امت کے چند لوگوں تک مخصوص نہیں ہوگا بلکہ تمام کے تمام لوگ اس کام میں حسب صلاحیت و ضرورت برابر کے شریک ہوں گے۔
عیدالاضحیٰ کے موقع پر امت محمدیہ پوری دنیا میں سنت براہیمی کو ادا کرتی ہے اور انہیں ذبح عظیم پر خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ اسی کے ساتھ دنیا کے ان تمام خطوں میں جہاں کہیں وہ رہتی اور آتی جاتی ہے اور سال کے بارہ مہینے قربانی کے عمل کو دہراتی رہتی ہے۔ جان ومال، علم وعمل، ذہن وفکر، فسلفہ ونظریہ غرض زندگی کے تمام شعبوں میں قربانی دینے میں عزیمت سے کام لینے کا عمل ایک دو دن کا نہیں ہے ۔
آغاز اسلام کی آزمائشوں سے لے کر دور حاضر کی پئے در پئے آنے والی آفات ومصائب ،ابتلاء و آزمائش میں افراد امت ثابت قدم رہتے ہیں۔ حسب موقع وصلاحیت ہر قسم کی قربانی دے کر اطاعت ، فرمابرداری اور جاں نثاری کا مظاہرہ کرتے ہیں جسے دیکھ کر دنیا انگشت بہ دنداں رہ جاتی ہے۔
اغیار کی طرف سے نازل ہونے والی آفات اور ڈھائے جانے والے قہر پر امت مسلمہ نا امیدی کا شکار نہیں ہوتے۔ اسے وہ اپنے لئے ابتلاء وآزمائش او ر اپنی رگوں میں حرارت ایمانی کے پیدا ہونے کا موثر ذریعہ تصور کرتے ہیں۔ اس امید ورجاء کے ساتھ قہر کے دریاؤں میں چھلانگ لگاتے اور ظلم کے انگاروں پر مسکراتے ہوئے چل پڑتے ہیں کہ انہیں پار کرتے ہی کامیابی ان کے قدم ضرور چومے گی۔
تاریخ شاہد ہے کہ ایک بار نہیں باربار کامیابی نے ان کے قدموں کو بوسہ دیا ہے اور ان کی قربانی کی عظمت کو زمانے نے سلام کیا ہے۔ عید الاضحیٰ اسی عظمت وعزیمت کا جشن اور ابتلاء وآزمائش میں ثابت قدمی کی تلقین ہے۔