حال ہی میں دہلی ہائی کورٹ نے ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ پر زور دیا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کی جج پرتبھا ایم سنگھ نے طلاق کے معاملے کی سماعت کے دوران کہا کہ ملک اب مذہب، ذات پات اور طبقہ کی تفریق سے بالاتر ہوچکا ہے، لہذا یہی یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا صحیح وقت ہے۔
دہلی ہائی کورٹ کے ‘یکساں سول کوڈ’ کے بیان سے متعلق آل انڈیا امام کونسل کے رہنما مولانا معظم نے کہا کہ یہ بیان دستور کی دفعہ 44 کی غلط تشریح ہے جس کے ذریعہ عوام کی مذہبی آزادی ختم ہوجائے گی۔
مولانا معظم نے کہا کہ ”یونیفارم سول کوڈ“ کا مطلب دستوری حقوق سے متعلق تمام رہنما اصولوں کا یکساں تحفظ ہے۔
دہلی ہائی کورٹ کے یونیفارم سول کوڈ کی حمایت اور برہمنی بھارتی حکومت کے پاس تجویز بھیجنے پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ”آل انڈیا امام کونسل کرناٹک“ کی سکریٹریٹ نے اسے دستور کے خلاف خطرناک سازش قرار دیا اور کہا کہ ”دفعہ 44 کے اندر جس یونیفارم سول کوڈ کی بات کی گئی ہے اس کا تعلق قانون بنانے سے نہیں بلکہ بنے ہوئے قوانین کے تحفظ سے ہے’۔
انھوں نے مزید کہا ‘دستور ہند کے دفعہ (15) کے شق (1) میں ہے کہ”مملکت محض مذہب، نسل، ذات، جنس یا مقام پیدائش یا ان میں سے کسی کی بنا پر کسی شہری کے خلاف امتیاز نہیں برتے گی“۔
اسی طرح دستور کے دفعات 25، 26، 27، 29، اور 30، جن میں بھارت میں رہنے والے تمام اقلیتوں کو مذہب کی آزادی، منتخب معاملات میں اپنے پرسنل لا پر عمل کی آزادی، اپنی تہذیب، زبان، اپنے ادارے قائم کرنے کی آزادی اور بغیر کسی جبر کے اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کی آزادی وغیرہ شامل ہے“ کے بھی سراسر خلاف ہے۔
اس کے باوجود دہلی ہائی کورٹ کا یہ کہنا کہ ملک میں یونیفارم سول کوڈ کی ضرورت اور نفاذ کا یہ بہترین وقت ہے اور اس تعلق سے بی جے پی جیسی برہمنی حکومت کو تجویز بھیجنا کس قدر قانون شکنی اور عوام دشمنی پر مبنی ہے اس کا اندازہ ہر ذی شعور لگا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں دہلی ہائی کورٹ نے ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ پر زور دیا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کی جج پرتبھا ایم سنگھ نے طلاق کے معاملے کی سماعت کے دوران کہا کہ ملک اب مذہب، ذات پات اور طبقہ کی تفریق سے بالاتر ہوچکا ہے، لہذا یہی یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا صحیح وقت ہے۔
جسٹس پرتبھا ایم سنگھ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ آج کا بھارت مذہب، ذات، پات اور قوم سے بالاتر ہو چکا ہے۔ جدید بھارت میں مذہب اور ذاتوں کی بندشیں تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ جس کے سبب بین المذاہب اور بین الطبقات شادیوں اور طلاق میں دقتیں پیش آ رہی ہیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ آج کی نوجوان نسل کو ان دقتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے اس لیے ملک میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ ناگزیر ہے۔ آئین کی دفعہ 44 میں یکساں سول کوڈ کی جو امید ظاہر کی گئی ہے اسے اب صرف امید نہیں رہنا چاہیے بلکہ اسے حقیقت میں بدل دینا چاہیے۔