اسلام میں تعلیم کی بڑی اہمیت ہے، حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر علم ہی کی بنیاد پر تفوق حاصل ہوا ہے، علم کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ سبحانہ نے پہلی وحی میں علم وقلم کا ذکر فرمایا ہے، اسلامی علوم ومعارف ہوں کہ عصری وسائنسی علوم ہر دوکی اپنی جگہ اہمیت ہے ، البتہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ دین کا علم حاصل کرنا ضرورت کی حد تک ہر مسلمان پر فرض عین ہے۔
تعلیم و تربیت خواہ وہ علوم اسلامیہ کی ہو یا عصری علوم کی آبِ حیات کا درجہ رکھتی ہے ،اللہ سبحانہ نے اس اُمت کے سر پر خیر امت کا تاج رکھا ہے ،یہ اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ امت مسلمہ اسلامی علوم میں کمال درجہ مہارت کے ساتھ عصری علوم میں بھی امامت و قیادت کا فرض نبھائے یہ صحیح ہے کہ امت کے سارے نوجوان بیک وقت ان دونوں خوبیوں کے حامل نہیں ہوسکتے اس لئے امت کی ایک معتد بہ جماعت اسلامی علوم کے بے بہا سمندروں میں غوطہ زن ہوکر ایسے بیش بہا موتی نکال لائے کہ اس امت کو کاسۂ گدائی لئے کسی کے آگے ذلیل و رسوا نہ ہونا پڑے ۔
اللہ سبحانہ نے یہی روح پرور پیغام دیا ہے ،ارشاد ہے ’’تو ایسا کیوں نہ ہو کہ ان کے ہر گروہ میں سے چند آدمی نکلتے تاکہ دین (کے مسائل) میں سمجھ پیدا کرتے اور جب اپنے لوگوں کے پاس جاتے تو ان کو آگاہ کرتے کہ وہ بھی برائیوں سے بچیں (توبہ ؍۱۲۲ )۔
چونکہ اسلام کے احکام قیامت تک کے لئے ہیں،زمانہ جو ں جوں ترقی کررہا ہے نئے نئے احوال اس امت کو درپیش ہیں،ظاہر ہے اس وقت کتاب و سنت کے ایسےماہر علماء تیار ہوںجواحوال زمانہ سے با خبر ہو ں، وقت کی نبض پر ان کا ہاتھ ہو، عصری علوم سے بھی ضرورت کی حد تک واقف ہو ںاور بروقت کتاب و سنت کی روشنی میںاس امت ہی کی نہیں بلکہ انسانیت کی ہدایت کا فرض پورا کریں ورنہ کاروان انسانیت اَن دیکھےتاریک راستوں پر چل پڑے گی ،جس کی منزل کا اس کو کچھ پتہ نہیں ہوگا ۔
اسی طرح ایک اور جماعت عصری علوم کی گہرائیوں وگیرائیوں میں شناوری کرکے تحقیق و جستجو کی نئی راہیں کھوجے اور نئی نئی دریافتوں سے ایسے نقوش چھوڑے کہ آنے والی نسلوں کیلئے تحقیق و جستجو کی راہیں آسان ہوں اور وہ بھی نئی نئی ایجادات کھوج نکالے ،تاکہ اس میدان میں بھی تمغۂ افتخار ہمیشہ اسی کی پیشانی کا جھومر بنارہے،تاہم مقصد تخلیق کی تکمیل سے وہ بھی بے نیاز نہیں رہ سکتی ،سچےمسلم بن کر زندگی گزارنے کیلئے پیغام الہی کوعزیز از جان رکھے ،اسلام کے بنیادی اعتقادات واحکام سے اس قدر واقف ہو کہ اس کے مرنے اور جینے کا فیصلہ اسلامی احکام کے عین مطابق ہو،ظاہر ہے بنیادی دینی تقاضوں سے روشناس ہوئے بغیریہ اہم منزل سر نہیں کی جاسکتی،ہر دو گروہ کی تیاری فرض کفایہ ہے ۔
اس وقت اسلامیات کے ایسے ماہرین بھی امت کو کم ہی دستیاب ہیں جو اس میدان میں امامت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہو ں،سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو اس کی دو خاص وجوہات ہیں ،پہلی وجہ تو یہ ہے کہ علوم اسلامیہ کی جامعات ، مدارس و مکاتب ،عصری سہولتوں سے آراستہ نہیں ہیںاور ایسے اساتذہ بھی کمیاب ہیںجو حقیقی معنی میں ایسا رول ادا کرسکیں جس سے ماہرین علوم کی ایک کھیپ تیار ہو ممکن ہے یہی وجہ ہوکہ ذہین اور اعلیٰ صلاحیتیوں کی حامل نئی نسل دینی مدارس و جامعات کا رخ نہیں کرپارہی ہے اور یہی کمی شایدان کے والدین کو بھی اس پر آمادہ نہیں کررہی ہے کہ وہ اپنے باصلاحت نوجوان بچوں کو ان کے حوالے کریں ان حالات میں ملت کے نوجوانوں کا جو سرمایہ ان مدارس کی آغوش میں پناہ لے رہاہے ان کی اکثریت غریب و نادار ہوتی ہے جن کے والدین عصری علوم کی جامعات میں داخلہ دلانے کی سکت نہیں رکھتے اس لئے وہ نسل جو مدارس اسلامیہ تک پہنچتی ہےان میں اکثر اعلیٰ صلاحیتوں کی بڑی کمی دیکھی جاتی ہے ،اس سے انکار نہیں کہ ان کے اندر بھی بہت سے قیمتی ہیرے جواہرات ہاتھ لگتے ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہوتی ہے بسااوقات اچھے مربی و مشفق ماہر اساتذہ تک ان کی رسائی نہ ہوتووہ بھی بڑی حد تک ضائع ہوجاتے ہیں ،حضرت سعدی علیہ الرحمہ نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے اور تمثیل کی زبان میں دعوت غور و فکر دی ہے ۔
شمشیر نیک زآہن بدچوں کندکسے
ناکس بہ تربیت نہ شود اے حکیم کس
باراں کہ در لطافتِ طبعش خلاف نیست
در باغ لالہ روید و در شورہ بوم خس
حضرت علیہ الرحمہ نے تلوار کی مثال دی ہے کہ اچھی عمدہ اور کارگر تلوار بنانا ہو تو اس کے لئے عمدہ لوہے کی ضرورت ہوتی ہے ،خراب اور ناکارہ لوہے سے عمدہ تلوار تیار نہیں کی جاسکتی کچھ ایسی ہی مثال ان کی ہے جو صلاحیتوں سے محروم ہیں ظاہر ہے تربیت سے ان کو بے مثال انسان بنانا آسان کام نہیں ،آسمان سے بارش برستی ہے اس کے پاکیزہ قطرات دلوں کو موہ لیتے ہیںموتیوں جیسی ان کی شفافیت آنکھوں کو بھاتی ہے اس کی لطافت کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ،لیکن وہ بھی جب بنجر زمین پر برستی ہے تو وہاں خس و خاشاک کے سوا کچھ نہیں ہوتالیکن یہی باران رحمت جب زرخیز زمین پر برستی ہے تو وہ اس کو گل وگلزار بنادیتی ہے ،اور ایسی باغ و بہاری جلوہ بداماںہوجاتی ہے جو حال و ماحول کو روح پرور و دیدہ زیب بناتی اور فضائوں کو رنگ و نور سے بھردیتی ہے ،اس لئے دینی مدارس و جامعات کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہئے ،تاکہ امت کا Creamطبقہ یعنی باصلاحیت نونہال ونوجوان ان کا رخ کریں اور ان کے سرپرست بھی بخوشی اس پر رضامند ہو ں،درد و فکر کے ساتھ ان کی تعلیم وتربیت کا نظم ہواورخدا ترس مشفق ماہراساتذہ اس اہم فریضہ پر مامور ہوںتاکہ علوم اسلامیہ پر گہری دسترس رکھنے والے اور امت تک اس کا پیغام پہونچانے والے علماء تیار ہو ں، طلباء غریب و نادار ہی کیوں نہ ہوںان کو نکھارنے اور سنوارنے میں اپنی بھرپور توانائیوں کا استعمال کریں،اس سے اچھے نتائج کی امید کی جاسکتی ہے ،ان شاء اللہ اس سے ایسے ماہر اور باکمال ماہرین اسلامیات پیدا ہونگے جو اپنے اسلاف کے سچے جانشین ثابت ہوںگے۔ اس سےانکار نہیں کہ ناگفتہ بہ حالات میں بھی دینی مدارس و جامعات کا بڑا رول ہے جن کی وجہ مسلم معاشرہ بڑی حد تک اسلام پر کاربند ہے اور مسلمانوں کے سینوں میں ایمان و ایقان کی شمع روشن ہے ،دشمنان اسلام کی اسلام کے خلاف مہم جوئی کی سازشیں بارآور نہیں ہو پا رہی ہیں ۔ساری امت کو ان دینی مدارس و جامعات کا شکر گزار ہونا چاہئے اور ہر طرح ان کی قدر و ہمت افزائی کرنی چاہئے،چونکہ یہی وہ دینی مدارس و جامعات ہیںجن میں فقیرمنش بوریانشینوں نے پوری دردمندی و جگرسوزی کے ساتھ ایسے باکمال انسان تیار کئے ہیں جو آج بھی ستاروں کے مانند آسمان علم و عمل کے افق پر جگمگارہے ہیں ان کی جگمگاہٹ آج بھی کتنے ہی سینوں کو منور رکھے ہوئے ہے اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخش رہی ہے۔ ایسے مخلص خدا ترس دل درد مند و فکر ارجمند کے مالک بوریا نشین علماء و مشائخ ہی ہیں جو نہ مساعد حالات میں بھی ہر زمانے میں مغموم دلوں کو جلاکر امت کے مستقبل کا چراغ روشن رکھے ہوئے ہیں ،علامہ اقبال رحمہ اللہ نے اسی کی منظر کشی کی ہے ۔
ہوا ہے گو تند وتیز لیکن چراغ اپنا جلارہا ہے وہ مرد درویش جس کو حق نے دیئے ہیں انداز خسروانا
گمراہ انسانیت کے دلوں کی اجڑی دنیا کو آباد رکھنے میں ان کا بڑا رول ہے ،ایسے باوقار اخلاص و للہیت کے پیکر اساتذہ کی اس وقت ضرورت ہے ،خاص طور پر صاحبان ثروت کوبھی اپنے مال سے ان کی سرپرستی کرنا چاہئے ۔ تاہم بدلتے حالات میں اس وقت نئے تقاضے دامن گیر ہوگئے ہیں جن سے مفر نہیں جودینی جامعات کو از سر نو نصاب تعلیم میں کچھ ضروری عصری علوم کو شامل کرنے کی دعوت ِفکر دے رہے ہیں ،نئی نسل کو کارآمد بنانا ہو تو ان حقائق سے چشم پوشی ممکن نہیں ۔ لیکن پھر بھی موجودہ حالات ایسے دینی مدارس و مکاتب اور جامعات کے قیام کا تقاضہ کررہے ہیں جو بدلتے حالات میں لسان قوم میں اسلام کا پیغام انسانیت تک پہونچا سکیں،اس کے لئے ملکی سطح پر ایسی اعلیٰ جامعات کا قیام ہونا چاہئے جو اس وقت کی رائج انگریزی زبان میں اسلامی علوم کی تدریس کا فرض نبھائیںاور ریاستی سطح پر اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کا نظم مقامی زبانوں کی رعایت کے ساتھ ہو ،فریضۂ تبلیغ اس کے بغیر ادا نہیں ہوسکے گا ،یہ خیرامت سیدنامحمد رسول اللہ ﷺ کے پیغام کی امین ہےاس لئے اللہ سبحانہ کے ارشادپاک ’’ بلغ ما انزل الیک من ربک‘‘(مائدہ ؍۶۷)اور رسول رحمت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے فرمان مبارک ’’بلغو ا عنی ولو آیۃ ‘‘(سنن ترمذی ۹؍۲۷۷)کی تعمیل کی پابند ہے ،دشمنان اسلام کی اسلام پر یلغار کے اس دور فتن میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہےاس سلسلہ میں بھی اہل علم اور صاحبان خیر کو منصوبہ سازی کرنے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی سخت ضرور ت ہے ۔
اس کے ساتھ تمام مسلمانوں کو دین سے وابستہ رکھنے کیلئے بستی بستی ، قریہ قریہ اور بڑے شہروں کے مختلف علاقوں میں دینی مکاتب کاایک جال (Network)بچھانا چاہئے اور منظم طور پر ان کو چلانے کیلئے دردمند مسلم قائدین ، علماء ومشائخ اورصاحبان ثروت کو سنجیدہ و دردمندانہ غور و فکر کرتے ہوئے ایسی منصوبہ بندی کرنا چاہئے جو بلاکسی اختلاف مسلک و مشرب کےنوجوان نسل کو دین اسلام سے جوڑے رکھے ،خاص طور پر مساجد کو دین کے اہم ترین مراکز میں تبدیل کیاجانا چاہئے چونکہ اسلام پر جینے اور مرنے کا عزم وحوصلہ رکھتے ہوئے اسلام کے پیغام سے واقف ہونا ہر مسلمان پرفرض عین ہے ،دین کےتقاضوںسے ہم آہنگی کے بغیر اس مقصد حقیقی کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ اصحاب ثروت کا ایک معتد بہ طبقہ مساجد کی تعمیر میں بے دریغ اپنا سرمایہ لگارہا ہے بلاضرورت بھی کئی کئی منازل پر مشتمل مساجد تعمیر کی جارہی ہیں،ان کی تزئین و آرائش میں بھی اربوں،کھربوں روپئے صرف کئے جارہے ہیں جبکہ مساجد اس بات کا مرثیہ کررہی ہیں کہ ان کی گود میں سوائے چند مصلیوں کے اور کوئی نہیں ہے جو ان کے دامن رحمت میں پناہ حاصل کرنے کیلئے بے چین و بے قرار ہو۔
مسجد تو بنادی شب بھرمیں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
ظاہر ہے مساجد کی تعمیر کی بڑی اہمیت ہے لیکن کیا اس بات کا جواز فراہم ہوسکتا ہے کہ حد سے زیادہ تعمیر و تزئین میں قیمتی سرمایہ کھپایا جائے واقعہ یہ ہے کہ اس وقت ترجیحات کی بڑی کمی دیکھی جارہی ہے ،نیکیوں کے حصول کیلئے اس وقت قابل ترجیح بات یہی ہے کہ ضرورت کی حد تک مساجد ضرور تعمیر کی جائیں اور ان کو مصلیوں سے آباد رکھنے کے ساتھ آئندہ نسلوں کو مساجد سے مربوط رکھنے اوران سے آباد رکھنے کی حتی الوسع تیاری کی جائے ، صحیح معنی میں اچھے مصلیوں کو تیار کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ مساجد کو اوقات نماز کے علاوہ تعلیم و تربیت کی اعلیٰ جامعات یا کم سے کم مکتب جیسی درسگاہیں بنائے رکھنا چاہئے اور مساجد کے احترام کوپیش نظررکھتے ہوئے یہ کام کیا جانا چاہئے ، اس مقصد کی تکمیل کیلئے مسجد نبوی ﷺ کا روشن نمونہ موجود ہے ا س کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ کام بآسانی انجام پاسکتا ہے ،کچھ سال قبل تک مساجد نماز ،تلاوت ذکر و عبادت کے ساتھ ایک درسگاہ بھی تھیںوہ نوجوان جو عصری علوم کی تحصیل میں مشغول تھے ،ان کودین سے جوڑے رکھنے کیلئے مساجد میں صباحی و مسائی ،تعلیم و تربیت کا نظم تھا ،لیکن افسوس ۲۵ تا۳۰ سالوں سےیہ امت مسلک ومشرب کے ایسےتنازعات میں گھری ہوئی ہے کہ وہ اصل اسلام کے حقیقی پیغام کی روح سے غافل ہوگئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نمازوںکے علاوہ دیگر اوقات میں مساجد پر تالے لگے ہوئے ہیں،اس کا تدارک یہی ہے کہ مساجد کو مسالک کا نہیں بلکہ حقیقی معنی میں اسلام کا ترجمان بنایا جائے یہ تب ہی ممکن ہے جب کہ تمام مسالک کے ذمہ دار اور ان سے منسلک اصحاب کلمہ لآ اِلٰهَ اِلَّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّهِ پر متفق ہوجائیں ،اس کے ساتھ عام مسلمانوںکو عصری علوم سے بھی نسبت قائم رکھنا ضروری ہے اس کے لئے ایسے عصری مدارس کا قیام عمل میں لایا جانا چاہئےجو حقیقی معنی میںاسلام کے نمائندہ ہوںاور حکومتی و مخالف اسلام تنظیموں کے قائم کردہ مدارس جن میں اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ اوران پر نازل کی گئی شریعت کے خلاف مضامین شامل ِنصاب ہو ں،جہاںشرکیات و کفریات سادہ لوح معصوم بچوں کے سینوں میں کندہ کئے جاتے ہوں ،مسلم تاریخ کو مسخ کرکے نئی نسل کے ذہنوں کو مسموم کیا جاتا ہو ایسے تعلیمی اداروں کا رخ کرنے سے سخت اجتناب کیا جائے،کیونکہ ان میں تعلیم دلانے سے نئی نسل کے اسلام سے متنفر و برگشتہ ہوجانے اور کفریات و شرکیات کے بھنور میں پھنس جانے کا سخت ترین خطرہ لاحق ہے،۱۹۹۰ء کے ٹائمز میں یہ خبر چھپی کہ ۲۰ یا ۵۰ سال کے بعد پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ ہوگا، انگلینڈ وغیرہ کے ماہرین اکٹھے ہوئے کافی غور و فکر کے بعد کچھ سمجھ میں نہ آیا ،آخر کار روم میں جان پال پوپ سکینڈ کے پاس مسئلہ لے کر گئے تو اس نے ایک سوال کیا کہ یہ بتائو کہ مسلمانوں کے بچے زیادہ تر اسکولوں اور خاص طور پر انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں یا مکتب و مدرسے میں؟ توماہرین نے کہا کہ ۸۰ فیصد سے زیادہ بچے اسکولوں میں پڑھتے ہیں اور بہت کم بچے مدارس و مکاتب دینیہ میں پڑھتے ہیں تو پوپ نے ایک فقرہ کہا ۔ ’’کانوں میں روئی ڈال کر سوجائو! فکر نہ کرو! یہ بچے ہمارے ہیں ! مسلمانوں کے نہیں ‘‘( حوالہ محاسن اسلام مارچ ۲۰۱۷ء صفحہ نمبر ۵۸)۔
مخلوط تعلیم کے روح فرسا نتائج کسی سے پوشیدہ نہیں جس کو یہ امتِ ہی نہیں بلکہ ساری انسانیت بھگت رہی ہے ،اس لئے لڑکوں اور لڑکیوں کی علیحدہ علیحدہ درسگاہیں قائم کی جانی چاہئے ،کھیل کود ،سیر و تفریح ،بود و باش، ہر ہر مرحلہ میں اختلاط مردو زن پر قدغن لگنی چاہئے تاکہ سماج کی پاکیزگی باقی رہ سکے اور شرافت و کرامت ، شرم و حیا کی چادر تار تار نہ ہو ۔الغرض یہ امت صرف اپنوں کی نہیںبلکہ ساری انسانیت کی صلاح و فلاح کی ذمہ دار ہے اس لئے اس کے کاروان علم کا سفر محدود گوشوں تک نہیں بلکہ وسیع تر گوشوں تک ہوناچاہے ،ابررحمت بن کر سارے عالم پر چھاجانااور فیضان علم و حکمت کی بارش انوارسے اپنے اور پرایوں کی تخصیص کے بغیر پرہر ایک کو سیراب کرنا اور روحانی پیاس بجھاناچاہئے ، اس سلسلہ میںسعی پیہم کرتے ہوئے اس امت کو کاروان علوم و معارف کی پاسباں بننا اور اس کی قیادت کرنا چاہئے یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس امت کا سینہ علوم و فنون کا گنجینہ بن جائےآدم خاکی کی عظمت کا راز اسی میں پنہاں ہے اور اسی سے دنیا کا گوشہ گوشہ علوم و معارف کی روشنی سے منور ہوسکتاہےاور اسی سے سارا عالم امن و آمان ،سکون و سلامتی کا گہوارہ بن سکتا ہے ۔