ایران کے نو منتخب صدر ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں کوئی ’رکاوٹ نہیں‘ ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ ایران کے بلیسٹک میزائل پروگرام یا علاقائی ملیشیا کی حمایت پر بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ابراہیم رئیسی نے پہلی پریس کانفرس میں کہا کہ ایران کی طرف سے سفارت خانے کھولنے اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
ان سے 1988 میں تقریباً پانچ ہزار لوگوں کی اجتماعی پھانسی میں ملوث ہونے کے بارے میں جب پوچھا گیا تو انہوں نے خود کو ’انسانی حقوق کا محافظ‘ قرار دیا۔
ایران کے نو منتخب صدر ایک نام نہاد ’ڈیتھ پینل‘ کا حصہ تھے جس نے 1980 کی دہائی میں ایران عراق جنگ کے اختتام پر سیاسی قیدیوں کو موت کی سزا دی تھی۔
رئیسی نے کہا کہ ان کے ملک کی خارجہ پالیسی 2015 کے جوہری معاہدے تک محدود نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم دنیا کے ساتھ بات چیت کریں گے۔‘
ابراہیم رئیسی نے کہا کہ ہم ایرانی عوام کے مفادات کو جوہری معاہدے سے نہیں جوڑیں گے۔ انہوں نے کہ امریکہ ایران پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا پابند ہے۔
ابراہیم رئیسی کی کامیابی ایران کی تاریخ میں کم ترین ٹرن آؤٹ پر ہوئی۔
لاکھوں ایرانی انتخابات کی مخالفت میں گھروں پر ہی رہیں، جنہوں نے ووٹ دیے ان میں سے 37 لاکھ افراد نے یا تو غلطی سے یا دانستہ طور پر اپنے بیلٹ خالی چھوڑے۔
یہ تعداد گذشتہ انتخابات سے زیادہ ہے اور اس سے پتہ چلا ہے کہ کچھ ووٹرز چاروں میں سے ایک بھی امیدوار کے حق میں نہیں تھے۔ ابراہیم رئیسی نے مجموعی طور پر 17 اعشاریہ نو ملین ووٹ حاصل کیے۔