موت ایک اٹل حقیقت ہے انسانی زندگی کا یہ ایسا حادثہ ہے جس سے کسی کو اختلاف نہیں، اس دنیا میں ہر آنے والے کے لئے موت مقدر ہے، موت کا اعتراف کئے بغیر کوئی چارہ نہیں، یہ ایسی صداقت ہے جس کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موت کب آئے گی اور کس لمحہ انسان موت کی آغوش میں پہونچ جائے گا کوئی نہیں بتا سکتا، علامہ اقبال نے موت کی حقیقت کو بہت ہی سادہ الفاظ میں سمجھایا ہے اور تمثیل کی زبان میں اس کی بہترین عکاسی کی ہے کہتے ہیں
زندگی انساں کی ہے مانند مرغ خوش نوا
شاخ پر کچھ دیر بیٹھا چہچہایا اُڑ گیا
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی خوشی سے مرنا نہیں چاہتا، زندگی اور زندگی کی خوش رنگیاں جینے کا حوصلہ بڑھاتی ہیں، مرنا تو ہر ایک کا مقدر ہے لیکن مرنے والوں میں وہ اچھے انسان بھی ہوتے ہیں جو مومن کامل کہلاتے ہیں جن کی زندگی مرضیاتِ رب کے مطابق بسر ہوتی ہے اور سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک اسوہ پر عمل کر کے جو اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کی جلوہ گاہ بنالیتے ہیں، وہ موت سے نہیں گھبراتے ، ہنستے کھیلتے دنیا سے کچھ ایسے رخصت ہوتے ہیں کہ ان کے لبوں پر مسکراہٹ ہوتی ہے، اس کو مرد مومن کی علامت کہا گیا ہے، موت جب آئے تو اس کے ہونٹوں پر تبسم ہو، اس حقیقت کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے
نشانِ مرد مومن باتو گویم
چومرگ آید تبسم بر لب اوست
موت ایک دروازہ ہے دنیا سے آخرت کی زندگی میں پہونچنے کا، اسی کو ایک حدیث پاک میں پُل گذر کر ایک اللہ کا چاہنے والا اللہ سے ملاقات کرتا ہے، الموت جسریوصل الحبیب الی الحبیب ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کل نفسن ذائقۃ الموت۔(۲۱؍۳۵)، ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے، مزہ چکھنا ایک محاورہ ہے، کسی جرم کی سزاء بھگتنے کو مزہ چکھنے سے تعبیر کیا جاتا ہے، ظاہر ہے جسم و روح مل کر ایک جان ہوتے ہیں، روح جو جسم کا حصہ بن چکی ہے اس کا جدا ہو جانا کوئی آسان بات نہیں ہے اس وقت درد و الم کا ہونا ایک طبعی بات ہے ، ہاں البتہ اہل اللہ کا معاملہ اس سے جدا ہے، ممکن ہے ان کیلئے موت کا کٹھن مرحلہ آسان ہو بجائے تکلیف کے انہیں راحت محسوس ہو، دنیا کی حقیقت جن کی نگاہوں ہیچ ہو ، فانی دنیا سے جنہوں نے دل نہ لگایا ہو دنیا کی نیرنگیوں نے جنہیں اپنی طرف متوجہ نہ کیا ہو وہ کیوں کر اپنا جی دنیا میں لگا سکتے ہیں، اور دنیا کی محبت میں کہاں اپنی جان کھپاسکتے ہیں، اسی لئے جب موت آتی ہے تو وہ ان کے لئے پیغام ِ رحمت بن کر آتی ہے، اللہ والوں کی شان تو یہی ہے کہ وہ ہمیشہ محبوبِ حقیقی سے ملاقات کے متمنی اور اس کے دیدار کی تمنا سے سرشار رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے موت کی تکلیف تو ان کو بھی لاحق ہوتی ہے لیکن لقائے حق کی تمنا اور اس کے دیدار کی آرزو کی لذت اس قدر غالب ہوتی ہے کہ ان کو اس تکلیف کا احساس نہیں ہوتا، اور ان کی روح جسم سے ایسے نکل جاتی ہے جیسے مسکہ سے بال، حضور سرور عالم سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ یہ دعا مانگی ہے و اسئلک لذۃ النظر الی وجہک الکریم و الشوق الی لقائک فی غیرضَرَّائَ مُضِرَّۃٍ وَ لَا فِتْنَۃٍ مُضِلَّۃٍ ،(نسائی ۳؍۵۴، ۵۵)۔
اے اللہ میں تجھ سے تیرے دیدار کی لذت اور تجھ سے ملاقات کے شوق کی تڑپ مانگتا ہوں جس میں نہ کوئی تکلیف و مصیبت ہو اور نہ گمراہ کرنے والے کوئی فتنے ہوں۔ (الحدیث) ایمان والے بندوں کیلئے تو بڑی خوشخبری ہے اور رحمت ایزدی ان پر اپنی رحمتیں نچھاور کر تے ہو ئے ان کا استقبال کر تی ہے ،
ارشاد باری ہے ،ائے نفس مطمئنہ تو اپنے رب کی طرف اسطرح لوٹ کر چل کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے خوش پس میرے خاص بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں پہنچ جا ، ۹۰ ؍۲۷۔۳۰ ۔ حضرت نبی پاک ﷺ نے بڑی پیاری دعا سکھائی ہے ، جس مںے ایک بندہ اللہ سبحانہ سے نفس مطمئنہ مانگتا ہے ، اور وہ بھی ایسا جو اس اطمنان کے ساتھ اس کی لقا و ملا قات پر ایمان رکھتا ہو ، اوراس کے فیصلوں پر راضی رہنے اور اس کی عطا پر قناعت کا سوال کر تا ہو ۔ ’’ اللھم انی اسئلک نفسا بک مطمئنۃ تؤ من بلقائک و تر ضی بقضائک و تقنع بعطائک۔(ابن کثیر)
دنیا سے جانے والے وہ بھی ہوتے ہیں جو معرفت الہٰی سے سرشار ہوتے ہیں اور جن کے سینے اللہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے معمور ہوتے ہیں اور وہ بھی ہوتے ہیں جو ایمان رکھنے کے باوجودزاد آخرت سے خالی یعنی اعمال صالحہ کی پونجی ساتھ لئے بغیر رخصت ہوتے ہیں وہ بھی ہوتے ہیں جو ایمان و معرفت کے نور سے محروم اللہ کی زمین پر اس کے احکامات سے بغاوت کرتے ہوئے زندگی گذارتے ہیں، موت کی گھڑی ان کیلئے تو بڑی کٹھن ہے،ارشاد باری ہے ، کاش کہ آپ اس وقت کو دیکھیں جب فرشتے کافروں کی روح کو قبض کرتے ہیں تو ان کے منہ پر اور انکی سرینوں پر مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم جلنے کا عذاب چکھو ،۸؍۵۰۔ اور آپ اس وقت ان ظالموں کو دیکھیں جب وہ موت کی سختیوں میں ہو نگے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہونگے کہ تم اپنی جانیں نکالو تم کو تو آج ذلت کی سزا دی جائے گی اس سبب سے کہ تم اللہ تعالی پر جھو ٹی باتوں کی تہمت باندھتے تھے اور اسکی نشانیوں سے تکبر کرتے تھے،۶؍ ۹۳۔ فرشتوں کی طرف سے سختی ان کی موت کے وقت بھی ممکن ہے اور بروز حشر بھی ، میدان حشر میں ذلت و رسوائی کے ساتھ ابدی طور پر دوزخ میں جلنے کا عذاب پھرالگ ہے ،
ارشاد باری ہے اور جس دن جہنم بھی لائی جائیگی اس د ن انسان کے سمجھ میں آئے گا لیکن آج اس کا سمجھنا کہاں فائدہ دے سکتا ہے ، وہ کہے گا ائے کاش کہ میں اپنی اس زندگی کیلئے کچھ پیشگی تیاری کر لیتا ، ۸۹؍ ۲۳۔۲۴، قیامت کا ہولناک منظر اللہ کے باغیوں ،و نا فر مانو ں کی آنکھیں کھول دے گا ، اور وہاں ان کو اپنے کفر و شرک اورگناہوں پر ندامت ہو گی، موت سے قبل ہو نے والی ندامت تو فائدہ دے گی لیکن موت کے بعد ہو نے والی ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا ، پھر حسرت و یاس ان کے دامن گیر ہو گی ، اور وہ حسرت و یاس بھی ان کی رائیگاںجائے گی ، الغرض کوئی ہو ہر ایک کو دنیا چھوڑنا ہے، موت سے کسی کو مفر نہیں وہ نیک و بد ہر ایک کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے، ارشاد باری ہے تم جہاں کہیں رہو موت تم کو ضرور پکڑ لے گی، تم اپنے آپ کو مضبوط قلعوں میں کیوں نہ محصور کر لو، ۴؍ ۷۸ ۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جو ایک بہادر صحابی گذرے ہیں اسلام لانے سے پہلے ان کی ساری طاقت و قوت اسلام کے خلاف استعمال ہوتی رہی لیکن جیسے ہی نور ایمانی نے ان کے دل کو روشن کر دیا وہ پھر اسلام کے ایک بہادر سپاہی بن گئے اور جتنی کچھ مخالفت انہوں نے اسلام کے لئے کی تھی اسلام لانے کے بعد اسلام کی بھر پور تائید و حمایت میں اپنی طاقت و قوت صرف کر کے بڑی حد تک پچھلی زندگی کا کفارہ ادا کرنے کی بھر پور کوشش کی، ان کی تمنا یہی تھی کہ ان کی موت بستر مرگ پر نہ ہو بلکہ میدان جنگ میں اسلام کی حمایت کرتے ہوئے وہ اللہ کے دربار میں جامِ شہادت نوش کر کے پہونچیں۔ لیکن ان کی یہ تمنا پوری نہ ہوسکی چونکہ اللہ کی مرضی یہی تھی ،ان کی موت میدان جنگ کے بجائے ان کے بستر پر مقدر تھی، چونکہ موت کا نظام بلکلیہ قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے، دنیا کی کوئی طاقت اس کو ٹال نہیں سکتی، موت کی گھڑی ایسی متعین ہے ،کہ اس کے وقت اور اس کی جگہ کا علم سوائے حق سبحانہ تعالی کسی اور کو نہیں ، وَمَا تَدرِ نَفس بائی ارض تموت ۳۱ ؍ ۳۴ ۔، وہ گھڑی جب آجاتی ہے تو اس میں نہ کوئی آگے ہو سکتا ہے نہ پیچھے، ارشاد باری ہے جب ان کی موت کا وقت آجاتا ہے تو نہ اس میں کوئی تقدیم ہو سکتی ہے نہ تاخیر۷ ؍ ۳۴۔، یہ بھی ارشاد ہے ’’اور جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اسے ہرگز کوئی مہلت نہیں دیتے‘‘ (۶۳؍۱۱)۔
موت کے مناظر تو ایسے ہیں جو روزآنہ ہر ایک مشاہدے میں آتے رہتے ہیں، مرنے والے کی موت پر افسوس بھی ہوتا ہے لیکن موت کا یہ منظر کسی کو اس کی اپنی موت یاد نہیں دلاتا، ہونا تو یہ چاہیئے کہ انسان دوسرے کی موت میں اپنی موت کا منظر دیکھے، اور اپنی آخرت کی کامیابی کی فکر کرے، جانا تو بہر حال ہر ایک کو ہے کوئی آگے، کوئی پیچھے ، لیکن ہر ایک کے لئے موت مقدر ہے، دوسروں کی موت اگر کسی کے لئے نصیحت کا پیغام بن جائے اور اس کو زاد آخرت تیار کرنے کی جدوجہد میں لگا دے اور اس کی زندگی کو فکر آخرت سے جوڑ دے تو یہ اس کے حق میں اخروی کامیابی کا زینہ ثابت ہو سکتا ہے،
لیکن کسی کو اگر دوسرے کی موت سے کوئی پیغام نہ ملے اور زندگی میں کوئی اچھی تبدیلی بھی نہ آئے صرف رونے دھونے اور افسوس کرنے تک ہی اس کی فکر محدود ہو جائے تو پھر وہ موت کے حقیقی پیغام سے محروم رہے گا اور اپنی موت کے لئے کوئی تیاری نہیں کر سکے گا، ہماری نگاہوں کے سامنے غفلت کے کچھ ایسے پردے پڑ گئے ہیں کہ جس کی وجہ سے حقیقی منظر تک ہماری نگاہیں نہیں پہونچ پاتیں، مرنے والوں کو روتے دھوتے دفن کر دیتے ہیں اور کچھ دن گذرنے نہیں پاتے کہ سب کچھ بھول بھال جاتے ہیں اور زندگی معمول پر آجاتی ہے وہی سیر و تفریح وہی زندگی کی نیرنگیوں میں کھو جانا، ہنسنا ہنسانا، کھانا پینا، اور عیش و آرام کے تقاضے تلاش کرنازندگی کا حصہ بن جاتے ہیں، ایمان رکھنے والے تو ظاہر ہے کامیاب ہیں نیکوکار، متقی و پرہیزگارانسان تو راحت و آرام میں رہیں گے، موت کی منزل سے گزر کر وہ ابدی راحت والی زندگی پالیں گے اور جو ایمان والے ضرور ہیں لیکن توشۂ آخرت جنہوں نے اعمالِ صالحہ کے ذریعے جمع نہیں کیا ہے وہ بھی فضل الہی شامل حال ہو جائے تو اسی گھڑی ورنہ پھراپنے کئے کی سزاء پاکر دیر سویر ہی صحیح جنت مکیں ہوں گے لیکن وہ جو ایمان کی نعمت سے محروم رہے
دنیا جہاں میں اگرچہ انہوں نے بڑا نام کمایا بڑے بڑے عہدے حاصل کئے انسانوں کی آنکھوں کا تارہ بنے، زندگی ساری اپنے مالک و خالق کو بھول کر اور دنیا میں اور اس کے تعیشات میں کھو کر گزاری ان پر افسوس ہے، اور ان کی زندگی دوسروں کے لئے عبرت ہے آخرت کی محرومی بڑی محرومی ہے، اب ان کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ اخروی کامیابی کے لئے کچھ کر سکیں، دنیا میں ان کی نیک نامی انکے کسی عہدے و منصب پر ہونا اور خلق خدا کے دلوں میں جگہ بنانا ، مال و دولت ، اولاد، جاہ و حشمت ، حکومت و سلطنت کوئی بھی انھیں وہاں کامیابی نہیں دلاسکتے۔ ’’ارشاد باری ہے، وہ دن ہوگا جس دن نہ مال فائدہ پہونچاسکے گا نہ ہی اولاد۔ ( ) ارشاد باری ہے ’’اے ایمان والو ہم نے جو کچھ تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو قبل اس کے وہ دن آجائے جس دن نہ کسی طرح کی کوئی تجارت ہے نہ کوئی دوستی اور نہ کوئی سفارش ہے، اور کافر ہی در حقیقت ظالم ہیں‘‘ (۲؍۲۵۴)۔
کفار و مشرکین اور منافقین تو ظاہر ہے شفاعت سے بالکلیہ محروم رہیں گے ،ہاں البتہ موحد اور مسلم وہ ہوں گے جن کے بارے میں اللہ کی اجازت سے شفاعت ہوگی، یہ شفاعت انبیاء و مرسلین بھی کریں گے ، شہداء و صالحین بھی اور اللہ کی نورانی مخلوق فرشتے بھی ، قیامت کے دن اسی کی بادشاہت ہوگی آخرت کو دنیا پر قیاس نہیں کیا جاسکتا دنیا میں تو بہت کچھ کر لیا جاتا ہے، کہیں سیاسی دبائو بنایا جاتا ہے تو کہیں طاقت و قوت کا سکہ چلایا جاتا ہے تو کہیں دولت کا دریا بہایا جاتا ہے، تو کہیں اثر و رسوخ کو استعمال کیا جاتا ہے، اس طرح بگڑے کام بنائے جاتے ہیں لیکن آخرت میں کوئی بھی اس میں سے کام آنے والا نہیں، یہ سارے دائو پیچ دنیامیں تو چل سکتے ہیں لیکن آخرت میں یہ سب کھوٹے ثابت ہوتے ہیں۔