مذہب کااصل مقصد درحقیقت تصفیہ عقائد ‘ تزکیہ نفس وروح اور اخلاق حسنہ کی ترویج ہے ۔ اسی لئے حضورنبی کریم ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد ہی یہ بیان فرمایا ” بعثت لاتمم مکارم الاخلاق “ کہ مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کےلئے بھیجاگیاہے اس لحاظ سے انسانیت کا نصب العین اخلاق حسنہ کی تکمیل ہے جو تزکیہ نفس کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔حضور نبی کریم ﷺ نے ہمیں تقوی اور تزکیہ نفس کےلئے ارکان اسلام کی صورت میں ایک ایسا پانچ نکاتی لائحہ عمل عطا فرمایا جو فطرۃ انسان سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت آسان اور قابل عمل بھی ہے ۔ انہیں ارکان اسلام میں سے روزہ ایک اہم ترین رکن ہے جو تزکیہ نفس کےلئے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے ۔روزے کی چند حکتمیں ہیں ۔
پہلی حکمت تقوی وپرہیزگاری کااختیارکرنا :
اہل ایمان پر پچھلی امتوں کی طرح روزے اس لئے فرض کئے گئے تاکہ وہ متقی اور پرہیزگاربن جائیں ۔ گویا روزے کا سب سے اولین وعظیم مقصد انسانی سیرت کے اندر تقوی کا جوہر پیدا کرکے اس کے قلب وباطن کو روحانیت ونورانیت سے منورکرنا ہے ۔ روزے سے حاصل کردہ تقوی کو بطریق احسن بروئے کارلایا جائے تو انسان کی باطنی کائنات میں ایسا ہمہ گیر انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے ‘ جس سے انسان کی زندگی کے شب وروز یکسر بدل کر رہ جائیں ۔
تقوی انسان کو حرام چیزوں سے اجتناب کی تعلیم دیتاہے لیکن اگر قرآن وسنت کا مطالعہ کیاجائے تومعلوم ہوگا کہ روزے کی بدولت حاصل شدہ تقوی حرام چیزوں سے تو درکنار ان حلال وطیب چیزوں کے قریب بھی بحالت روزہ بھٹکنے نہیں دیتا ‘ جن کواستعمال کرنااوران سے فائدہ اٹھانا عام زندگی میں بالکل جائز وحلال ہے ۔ ہرسال ایک ماہ کے اس ضبط کی لازمی تربیتی مشق کا اہتمام ‘ اس کے مقصد کے حصول کے لئے ہے کہ انسان کے قلب وباطن میں سال کے باقی گیارہ مہینوں میں حرام وحلال کا فرق وامتیاز روا رکھنے کا جذبہ اس درجہ فروغ پاجائے کہ اس کی باقی زندگی ان خطوط پر استوار ہوجائے کہ ہر معاملہ میں حکم خدا وندی کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہوئے وہ حرام چیزوں کے شائبہ سے بھی بچ جائے اوران کی طرف نظراٹھاکربھی نہ دیکھیں ۔
اگر تقوی کا مفہوم اچھی طرح سمجھ میں آجائے تو انسان کی زندگی سراسر خوف وخشیت الہی سے عبارت ہوجائے گی ‘ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہم میں سے اکثر وبیشتر روزے کے ثمرات سے محض اس لئے محروم رہتے ہیں کہ ہمارا شعار روزے کے تقاضوں کو پس پشت ڈال دینا بن گیاہے اور حضور ﷺ کے ارشاد مبارک کے مطابق ہمارے ہاتھ سوائے بھوک وپیاس کی مشقت کے کچھ نہیں آتا ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : کم من صائم لیس لہ من صیامہ الا الظماءوکم من قائم لیس لہ من قیامہ الا السھر “ کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ جن کو روزوں سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی قیام کرنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ جن کو اپنے قیام سے سوائے جاگنے کے کچھ نہیں حاصل ہوتا(مشکوۃ شریف )
دوسری حکمت صبر و شکر کی تربیت :
تقوی کی ایک کیفیت صبر کی آئینہ دار ہے ‘ جس کا تقاضا ہے کہ انسان کسی نعمت کے نہ ملنے یاچھن جانے پر اپنی زبان کو شکوہ وشکایت اور آہ وبکا سے آلودہ کےئے بغیر خاموشی سے برداشت کرے ۔ روزہ انسان کو تقوی کے اس صبرکے مقام سے بھی بلند مقام شکر پر فائز دیکھنے کا متمنی ہے ۔ وہ اس کے اندر یہ جذبہ پیدا کرنا چاہتا ہے کہ نعمت کے چھن جانے پر اور ہر قسم کی مصیبت ‘ ابتلاءاور آزمائش کا سامنا کرتے وقت اس کی طبیعت میں ملال اور پیشانی پر شکن کے آثار پیدا نہ ہونے پائیں ‘ بلکہ وہ ہر تنگی وبیشی کا بہرحال خندہ پیشانی سے مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنے رب کا شکرادا کرتا رہے ۔
اس ضمن میں دو صاحب حال بزرگوں کے واقعہ کا تذکرہ خالی از فائدہ نہ ہوگا ۔ طویل جدائی کے بعد جب وہ ملے اور ایک دوسرے کا حال پوچھا تو ایک نے کہا کہ اپنا حال تو یہ ہے کہ جب خدائے تعالی کسی نعمت سے نوازتا ہے تواس کا شکر اداکرتے ہیں ‘ ورنہ صبر سے کام لیتے ہیں ۔ دوسرے بزرگ نے فرمایا یہ توکوئی بات نہ ہوئی کہ ہمارے شہر کے کتوں کا بھی یہی حال ہے ۔ وہ مالک کے در پر پڑے رہتے ہیں اگر کچھ مل جائے تو دم ہلاکر اس کے آگے پیچھے جاتے ہیں اور اگر کچھ نہ ملے تو اسے چھوڑ کر کسی اور درپر نہیں جاتے ۔ پھر فرمایا کہ اپنا حال یہ ہے کہ جب مولا سے کچھ ملتا ہے تو اس کے بندوں میں بانٹ دیتے ہیں اور کچھ نہ ملے تو ہرحال میں اس کا شاکر اداکرتے رہتے ہیں ۔
روزہ چونکہ کھانے پینے اور نفسانی شہوات سے اپنے آپ کو روکنے کا نام ہے ۔ روزہ کی حالت میں انسان اللہ تعالی کی نعمتوں کو اپنے اوپر روک لیتاہے ۔ جب آدمی خاص مدت تک نعمتوں سے دوررہے تو پھر اس کی قدر کا پتہ چلتا ہے ۔بالعموم نعمت کی اہمیت اور قدر کا احساس نہیں ہوتا ‘اس کی قدر تب ہوتی ہے جب وہ مفقود ہوجائے ۔ پس یہ نعمت کی پہچان اور اس کی قدر کا جاننا اس کے حق کی ادائیگی کو واجب کردیتاہے ‘ اور حق کی ادائیگی شکر سے ہوتی ہے ۔ جو عقلا وشرعا فرض ہے اسی لئے اللہ تعالی نے آیات صوم میں لعلکم تشکرون کے ذریعہ تشکر کی ضرورت واہمیت کی طرف اشارہ کرتاہے ۔
تیسری حکمت جذبہ ایثار :
بحالت روزہ انسان بھوک اورپیاس کے کرب سے گذرتا ےہ تو لامحالہ اس کے دل میں ایثار بے نفسی اور قربانی کا جذبہ تقویت پکڑتاہے اور وہ عملی طورپر اس کیفیت سے گذر کر جس کا سامنا انسانی معاشرہ کے مفلوک الحال اور نان شبینہ سے محروم لوگ کرتے ہیں ‘ کرب وتکلیف کے احساس سے آگاہ ہوجاتاہے ۔ فی الحقیقت روزے کے ذریعہ اللہ رب العزت اپنے آسودہ حال بندوں کو ان شکستہ اور بے سروسامان لوگوں کی زبوں حالی سے کماحقہ آگاہ کرنا چاہتا ہے جو اپنے تن وجان کا رشتہ بمشکل برقرار رکھے ہوئے ہیں ‘ تاکہ ان کے دل میں دکھی اور مضطرب پریشان حال انسانیت کی خدمت کا جذبہ فروغ پائے اور ایک ایسا اسلامی معاشرہ وجود میں آسکے ‘ جس کی بنیاد باہمی محبت ومروت ‘ انسان دوستی اور درد مندی وغمخواری کی لافانی قدروں پر ہو ۔ اس احساس کا بیدارہوجانا روزے میں روح نام کی کوئی چیز باقی نہیں ۔
چوتھی حکمت تزکیہ نفس :
روزہ انسان کے نفس اور قلب وباطن کو ہرقسم کی آلودگی اور کثافت سے پاک وصاف کردیتاہے ۔ انسانی جسم مادے سے مرکب ہے ‘ جسے اپنی بقا کے لئے غذاءاور دیگر مادی لوازمات کرنا پڑتے ہیں ‘ جبکہ روح ایک لطیف چیز ہے ‘ جس کی بالیدگی اور نشوونما مادی ضروریات اوردنیاوی لذات ترک کردینے میں مضمر ہے ۔ جسم اور روح کے تقاضے ایک دوسرے کے متضاد اور نقیض ہیں ۔ روزہ جسم کو اپنا پابند اور منقاد بناکر قوتوں کو لگام دیتا ہے ‘ جس سے روح لطیف تراور قوی تر ہوتی چلی جاتی ہے ۔ جوں جوں روزے کی بدولت بندہ خواہشات نفسانی کے چنگل سے رستگاری حاصل کرتا ہے اس کی روح غالب وتوانا اور جسم مغلوب ونحیف ہوجاتاہے ۔ روح اور جسم کا تعلق پرندے اور قفس کا ساہے ‘ جیسے ہی قفسِ جسم کا کوئی گوشہ واہوتا ہے ‘ روح کا پرندہ مائل بہ پرواز ہوکر ‘ موقع پاتے ہی جسم کی بندشوں سے آزاد ہوجاتاہے ۔
مسلسل روزے کے عمل اور مجاہدے سے تزکیہ نفس کا عمل تیز ترہونے لگتا ہے ‘جس کی وجہ سے روح کثافتوں سے پاک ہوکر پہلے سے کہیں لطیف تر اور قوی تر ہوجاتی ہے ۔ یہاں تک کہ بعض کاملین وعرفاءکی روحانی طاقت کائنات کی بیکرانیوں اور پہنائیوں پرحاوی ہوجاتی ہے ۔
حضور ﷺ کے روحانی تربیت یافتگان میں زہد وورع اور تقوی کی بناءپر اصحاب صفہ کو امتیازی مقام حاصل ہے ان کی زندگیوں پرفقر مصطفوی ﷺ کی نمایاں چھاپ تھی ‘ جو فقراضطراری نہیں بلکہ فقر اختیاری تھا روزے سے فقروفاقہ کی جو شان استغناءجنم لیتی ہے وہ تونگری سے کہیں اعلی مقام ورفعت کی حامل ہے ۔ شیخ سعدی نے کیا خوب فرمایاہے : ترجمہ : اپنے آپ کو خالی رکھ تاکہ تیرے اندر معرفت کا نور آئے ۔
الغرض نفس امارہ انسان کو برائی پراکساتاہے جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : ان النفس لامارۃ بالسوء“ بے شک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والاہے ۔نفس امارہ کو قابو میں رکھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بعض اوقات اپنے نفس کو جائز اور حلال خواہشوں سے بھی روکیں تاکہ ناجائز اور حرام کی طرف میلان کی جرات وہمت ہی نہ کرسکے ۔ اس کااثر یہ ہوگا کہ اس تربیت سے اس کی عادت بھی بدل جائے گی اور بری باتوں کی طرف اس کا دھیان ہی نہیں جائے گا ۔ پس جب اس تربیت کے لئے اللہ تعالی نے ہمیں رمضان المبارک کا مہینہ عطاکیاہے ‘جس میں انسان دن کے وقت حلال چیزیں کھانے ‘پینے اور جماع سے باز رہتا ہے ۔ توپھر وہ حرام جو کہ ہرحالت میں حرام ہے تواس دوران پھر اس کی طرف رغبت اور میلان کس طرح ممکن ہے؟ ۔ اگر انسان ایک طرف زہر کے اثر کو مٹانے کےلئے دعابھی کرے تو دوسری طرف زہر کا استعمال بھی کرے تو ایسی صورت میں دوا کا اثر کس طرح ممکن ہے ؟ اس لئے روزہ کا مقصود تبھی حاصل ہوتا ‘ جب انسان اپنے نفس کو پاک اور منزہ کرے ۔
پانچویں حکمت رضائے الہی کے حصول کا مقصد :۔
روزے کا منتھائے مقصود یہی ہے کہ وہ بندے کو وہ تمام روحانی مدارج طے کرانے کے بعد مقام رضا پر فائز دیکھنا چاہتا ہے ۔ یہ مقام رضا کیا ہے ؟ جو روزے کے توسط سے انسان کو نصیب ہوتا ہے اس پر غورکریں تو اس کی اہمیت کا احساس اجاگر ہوتا ہے رب کا اپنے بندے سے راضی ہوجانا اتنی بڑی بات ہے کہ اس کے مقابلہ میں باقی سب نعمتیں ہیچ دکھائی دیتی ہےں ۔ روزہ وہ منفرد عمل ہے جس کے اجر وثواب کا معاملہ رب اور بندے کے درمیان چھوڑدیاگیا ہے کہ اس کی رضا حدوحساب کے تعین سے ماوراءہے ۔جیساکہ حدیث میں حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتاہے ” الصوم لی وانا اجزی بہ “۔
رضائے خداوندی کی پہچان اور علامت :
رب تعالی اپنے بندے سے کب اورکیسے راضی ہوتا ہے اوراس بات کی کیا علامت ہے کہ رب اپنے بندے سے فی الواقع راضی ہوگیا ہے ۔ اس بارے میں ایک بزرگ نے اپنے مرید سے پوچھا تمہیں کس طرح پتہ چلے گا کہ رب تم سے راضی ہوگیاہے ۔ اس نے نہایت ادب سے جواب دیا : اذا وجدت قلبی راضیا عن اللہ تعالی علمت انہ راض عنی ۔ جب میں نے اپنے دل کو اپنے رب کے ساتھ راضی پایا تو میں سمجھ گیا کہ اللہ مجھ سے راضی ہے ۔
گویا خدا کی رضا کی کسوٹی اور پہچان یہ ہوئی کہ بندہ اپنے معاملات کی طرف نگاہ ڈالے اور اپنے دل سے سوال کرے کہ کیا وہ اپنے رب سے راضی ہے ۔ اس طرح خدا اور بندے کی رضا باہم مربوط اور لازم وملزوم ہے ۔ اس دوگونہ تعلق میں تاہم یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ رب کی رضا اپنے بندے کے معاملہ میں بہرحال مقدم ہے اور جب تک وہ راضی نہ ہوگا ‘ بندے کا رب کی رضا کے بارے میں مطمئن ہونا ممکن نہیں ہے اور بندے کی رضا اپنے رب سے لامحالہ موخر ہوگی ۔ قرآن حکیم نے اس تصور کو راضیۃ مرضیۃ کے بلیغ الفاظ سے اجاگر کیا ہے ۔
یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ جب تک خدا کی ذات بندے کی تلاش وجستجو اور طلب کا محور تھی ‘ اس بندے کی حیثیت محب اور طالب کی تھی ‘ لیکن جب وہ خود ذاتِ خداوندی کا محبوب ومطلوب بن گیا تو اسے خدا کے مرتضی (پسندیدہ ) ہونے کا مقام نصیب ہوگیا ‘ جس کی بناءپر وہ نہ صرف خدا بلکہ کائنات کا مدعا اور مقصود بن گیا ۔ اس مقام پر خدا کی رضا قدم بہ قدم بند کے شامل حال ہوگئی اور اسے زبان سے کچھ کہنے کی حاجت نہ رہی ۔