ملک وملت کے بے باک عالم جلیل فقیہ العصر حضرت العلامہ مولانا مفتی اعظم مفتی محمد عظیم الدین صاحب نقشبندی علیہ الرحمۃ صدر مفتی جامعہ نظامیہ کی رحلت سے جامعہ نظامیہ میں جو خلاء پیدا ہوا ہے اس کو پر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آپ کا سانحہ ارتحال نہ صرف اہل دکن بلکہ ملت اسلامیہ کے لئے ایک بڑا نقصان ہے جیسا آپ ﷺ نے فرمایا ’’ موت العالم موت العالم ‘‘ ایک عالم دین کی موت سارے عالم کی موت کے برابر ہے۔
آپ دیندار و علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، اور اپنے چچا حضرت مفتی محمد رحیم الدین صاحب علیہ الرحمہ کے علمی وارث وجانشین تھے۔ آپ علم و افتاء کے ساتھ تقوی و طہارت کے اعلی معیار پر فائز و متمکن تھے۔ دست قدرت نے آپکو بے شمار کمالات سے نوازا تھا ۔حق گوئی آپکا آئینہ تھا ، احقاق حق و ابطال باطل میں آپ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ مصلحت پسندی سے کوسوں دور تھے۔اس بارے میں” لا يخاف في الله لومۃ لائم” کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔
فقیر پر تقصیر غلام احمد افروز کو آپکی معیت وصحبت صالحہ میں دس سال رہنے کا شرف ملا ،اس عرصہ میں کم وبیش ہر روز آپکی صحبت میں رہتا اور بقدر استطاعت اکتساب فیض کرتا ۔ میں نے کبھی آپکے قول و فعل میں تضاد نہیں دیکھا اور نہ ہی کبھی کسی کی دل آزاری کرتے دیکھا ۔ وقت تربیت جسکو تنبیہ و سرزنش کرتے مابعد اسکی دلجوئی کرتے ۔
امانت علمی کا اس درجہ لحاظ کہ چھوٹے سے مسئلہ میں بھی ذرا سی کھٹک پر معتد بہ مستند کتب کی مراجعت فرماتے اگر مسئلہ دو اور دو چار کیطرح واضح و بے غبار ہوجائے تو ضبط تحریر فرماتے۔
فقیر فاضل اول سے آپکی صحبت میں رہنے لگا ، اسوقت مناسب عربی صلاحیت کے باوجود استخراج مسائل کی قدرت نہ تھی حتی کہ اہل خدمات شرعیہ سے مسائل کا استخراج دشوار ہوتا تھا، لیکن آپکی صحبت اور تربیت کی بنا دو تین سالوں میں امہات الکتب سے استخراج مسائل کا ہنر معلوم ہوا آپ نے فقیر کو مراجع و مصادر سے واقف کرواکر عبارت، وفہم عبارت کا سلیقہ عطا فرمایا ۔یہ حقیر پر حضرت کی کرم نوازی و بندہ پروری تھی جسکا حقیر جتنا شکر ادا کرے کم ہے ۔ فقیر پر حضرت کے لا متناہی الطاف و عنایات کا سلسلہ اخیر وقت تک تھا ۔ میرا فقہی شغف و ذوق حضرت ہی کے برکات سے ہے۔
فقیر نے ایک مرتبہ حضرت سے پوچہا کہ عالم عرب کے ممتاز محقق عالم جلیل شیخ عبد الفتاح ابو غدہ جب حیدرآباد کے دورہ پر تھے تو آپکی ملاقات انکے ساتھ کیسی رہی اور اسوقت کے احوال کیا تھے ؟ حضرت نے تفصیل سے سنایا اور ایک دلچسپ واقعہ بہی سنایا جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ علماء عرب بہی ہمارے اساتذہ کے قدردان ہیں۔
حضرت مفتی صاحب قبلہ 1973ء میں اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ حج کی سعادت کیلیے تشریف لے گئےمکہ مکرمہ میں صحن کعبہ میں شیخ عبد الفتاح ابو غدہ درس دے رہے تھے حضرت مفتی عظیم الدین صاحب رح ان سے ملاقات کیلئے تشریف لے گئے جیسے ہی شیخ نے حضرت مفتی صاحب کو دیکھا کھڑے ہوگئے اور نہایت گرمجوشی سے ملاقات کی اور کئ امور پر بات چیت کی اور حضرت سے کہا :آپ علم کے ساتھ صورت وشکل میں بھی اپنے چچا حضرت مفتی رحیم الدین صاحب قبلہ علیہ الرحمہ سے زیادہ مشابہ ہیں ۔ختم ملاقات پر اپنے تمام شاگردوں سے کہا : حضرت مفتی عظیم الدین صاحب قبلہ رح کی دست بوسی کریں اور دعائیں لیں۔
حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین صاحب قبلہ رحمہ اللہ کی خصوصیات
حضرت مفتی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ 1950ء سے پہلے جامعہ نظامیہ میں جماعت چہارم میں داخلہ لیے، اور جماعت در جماعت ترقی کرتے ہوئے مولوی اول میں پہنچے، اسی سال آپکو دار الافتاء میں بحیثیت مبیضہ نویس مقرر کیا گیا ۔ اس زمانہ میں "دار الافتاء” ہفتہ میں ایک روز رہتا تھا. آپ حصول علم کے ساتھ یہ خدمت بھی انجام دیتے رہے, یہاں تک کہ آپ فارغ ہوگۓ، اور جماعت کامل میں آپ معین المدرسین کا فریضہ بھی انجام دیئے۔
1960ء میں آپکا تقرر دائرة المعارف العثمانیہ میں ہوا اسکے کچھ عرصہ بعد ہی آپکو کارگذار مفتی کے عہدے پر منتخب کیا گیا ۔آپ نے بحسن و خوبی یہ ذمہ داری سنبھالی۔ پہر 1963ء میں آپکو باضابطہ جامعہ نظامیہ میں مفتی کے جلیل القدر عہدے پر فائز کیا گیا۔ آپ نے فقہ و فتاویٰ کی مکمل ٹریننگ ومشق، زمانہ طالب علمی میں ہی ، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا مفتی مخدوم بیگ علیہ الرحمۃ سے لی ۔حضرت بیک وقت دو مہتم بالشان علمی خدمات انجام دیرہے تھے۔ ایک پر عزم نوجوان کے فتاویٰ ملک وحیدرآباد دکن میں اکابر شخصیات کی موجودگی میں جاری ہوتے تھے جسمیں سر فہرست آصف جاہ سابع نواب میر عثمان علی خان مرحوم و مغفور ، محدث دکن حضرت عبد اللہ شاہ صاحب قبلہ علیہ الرحمہ، خطیب مکہ مسجد حضرت مولانا مفتی سید محمود قبلہ کان اللہ لہ سابق شیخ الجامعہ، آپکے چچا حضرت مولانا مفتی محمد رحیم الدین صاحب قبلہ علیہ الرحمہ سابق شیخ الجامعہ، یہ تمام حضرات، شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی بانی جامعہ نظامیہ قدس اللہ سرہ العزیز کے شاگردین ہیں ۔انکے علاوہ پیر قدرت اللہ شاہ صاحب قبلہ علیہ الرحمہ ، پاسبان مذہب حنفیہ حضرت مولانا ابو الوفاء افغانی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ،حضرت مولانا حکیم محمد حسین صاحب قبلہ علیہ الرحمہ، عالم متبحر حضرت مولانا مفتی محمد عبد الحمید صاحب قبلہ علیہ الرحمہ سابق شیخ الجامعہ جو حضرت کے خالو بھی ہوتے ہیں،شیخ الحدیث حضرت مولانا حاجی منیر الدین صاحب قبلہ علیہ الرحمہ خطیب مکہ مسجد، حضرت مولانا مفتی سعید صاحب قبلہ علیہ الرحمہ سابق شیخ الجامعہ، میرے دادا حضرت مولانا غلام احمد صاحب قبلہ علیہ الرحمہ،حضرت مولانا سيد طاہر رضوی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ سابق شیخ الجامعہ،حضرت مولانا مفتی محمد ولی اللہ صاحب قبلہ علیہ الرحمہ،وغیرہم شامل ہیں۔
یہ سارے حضرات آپکے اساتذہ ہیں،انکی موجودگی میں جامعہ نظامیہ جیسے موقر ادارہ کا مفتی بننا اور ان حضرات کا آپکے فتاوی پر دستخطیں ثبت کرنا یہ خود کمال درجہ کا امتیاز ہے ،آپکی شان فقاہت وکمال تبحری کا پتہ آپکے فتاوی دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے،آپکے فتاویٰ فقہ حنفی کا شاندار سرمایہ ہے، اور نوجوان علماء کیلیے جو فقہی شغف رکھتے ہیں کسی ذخیرہ سے کم نہیں،
آپکے فتاوی کو تمام مکاتب فکر کے علماء ومفتیان قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں، اور آپکے فتاوی کو نزاعی مسائلل میں قابل عمل مانتے ہیں ۔
آپ سے استفادہ کرنے والوں کی لمبی فہرست ہے لیکن یہاں ان حضرات کا تذکرہ کیا جاتاہے جو باضابطہ آپکی نگرانی میں فقہی مشق و فتویٰ نویسی کیے ہیں : مولانا مفتی صادق محیی الدین صاحب سابق مفتی جامعہ نظامیہ، مولانا مفتی سید ضیاء الدین صاحب شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ، مولانا مفتی قاسم صدیقی تسخیر صاحب سابق نائب مفتی جامعہ نظامیہ، مولانا مفتی امین الدین صاحب نائب مفتی جامعہ نظامیہ ہیں ۔
میری نظر میں، ماضی قریب میں، کسی مفتی صاحب نے اتنی لمبی مدت تک فقہ و افتاء کی خدمت کی ہو نہیں معلوم ۔
اللہ تعالیٰ آپکی ان خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے، اور اسے ذخیرہ آخرت فرمادے اور آپکی بال بال مغفرت فرمائے ،درجات میں ترقی عطا فرمائے اور جنت الخلد میں حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب وجوار میں مقام عطا فرمائے۔ اور آپکے خانوادہ فرزندان کو صبرِ جمیل اور اس پر اجر جزیل عطا فرمائے۔ آمین
لا نقول إلا ما يرضي ربنا
إنا لله و انا اليه راجعون
ولله ما أعطي وما أخذ
لم يخلف بعده مثله في العلم والزهد والورع والصدع بالحق
انا على فراقك يا شيخنا لمحزونون
وان العين لتدمع والقلب يحزن
تغمدہ اللہ برحمتہ الواسعہ