مشاہداتِ آسمانی کے نورانی جلووؤں کے بعد تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سدرۃ المنتہیٰ کے مقام تک لے جایا گیا۔ یہ وہ مقامِ عظیم ہے جہاں آ کر ملائکہ، حتیٰ کہ انبیاءو رسل کی بھی پرواز ختم ہو جاتی ہے۔ جہاں مقرب فرشتوں کے بھی پرجلتے ہیں۔ گویا ملاقات کا سارا نظام اور عالمِ امکان کی ساری بلندیاں سدرۃالمنتہیٰ پر ختم ہو جاتی ہیں۔ سدرۃالمنتہیٰ کا مقامِ اولیٰ عالمِ مکان کی آخری حد اور لامکاں کا ابتدائی کنارہ ہے۔
اس مقام پر تفسیر نیشاپوری اور تفسیر درِ منثور میں ایک حدیث نقل کی گئی ہے۔ فرشتے اللہ رب العزت کی بارگاہِ اقدس میں دعا مانگتے تھے کہ اے کائنات کے مالک! جس محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خاطر تو نے یہ کائنات تخلیق فرمائی جس پر تو اپنی زبانِ قدرت سے ہمہ وقت درود پڑھتا ہے اور ہم بھی تیرے حکم کی تعمیل میں اس ہستی پر درود و سلام کا نذرانہ بھیجتے ہیں آج وہی مہمانِ ذی وقار تشریف لا رہے ہیں۔ اے باری تعالیٰ! ہمیں اپنے اس رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بے نقاب جلوہ عطا فرما۔ اللہ پاک نے ان مقرب ملائکہ کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشا اور فرمایا کہ تم ساری کائناتِ آسمانی سے سمٹ کر اس درخت ”سدرۃالمنتہیٰ“ پر بیٹھ جاؤ۔ فرشتے ہجوم در ہجوم امڈ پڑے۔ فرشتوں کی اتنی کثرت ہوئی کہ وہ درخت ان کے نور کے سائے میں آگیا :۔فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت کی خواہش کا اظہار کیا تو انہیں اجازت دے دی گئی۔ پس فرشتوں نے سدرہ (بیری کے درخت) کو اپنی کثرت سے چھپا لیا تاکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت کر سکیں۔قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔جب سائے میں لے کر چھپا لیا سدرہ کو جس نے کہ چھپا لیا (ملائکہ کی کثرت نے)o
سدرۃالمنتہیٰ کے مقامِ عظیم پر قدسیانِ فلک کو مہمانِ ذی وقار کے دیدارِ فرحت آثار کا لازوال شرف حاصل ہوا۔جب مہمانِ عرش آگے بڑھنے لگے تو جبرئیلِ امین رک گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : جبرئیل چلو! تو عرض کیا :اگر میں ایک چیونٹی برابر بھی آگے بڑھا تو (تجلیاتِ الٰہی کے پرتو سے) جل جاؤں گا۔
سِدرہ سے آگے یکتا و تنہا۔اس مقام پر آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جنت کی سیر کرائی گئی۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جنت کے احوال کا مشاہدہ فرمایا اور وہاں کی نعمتوں کی زیارت فرمائی۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب سفرِ معراج کی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوئے تو جبرئیل اور براق ساتھ نہ تھے۔ آپ یکتا و تنہا ہی اپنے خالقِ کائنات کے اِذن سے روانہ ہوئے۔ اللہ رب العزت نے اپنے مہمانِ عرش کی سواری کے لئے ایک سبز رنگ کا ملکوتی اور نورانی تخت بھیج دیا۔ اس تخت کا نام ”زخرف“ تھا۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرشِ معلی تک پہنچایا گیا۔ جب سدرۃ المنتہیٰ کی منزل گزر چکی، جب فرشتوں کا استقبال پیچھے رہ گیا تو آگے ایک نور تھا اور دیکھنے والے کو اس نور کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اس نور میں غائب کر دیا گیا تو دیکھنے والی آنکھ آپ کو دیکھنے سے قاصر تھی۔ اب کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ نور کیا ہے؟ کیسا ہے؟ کہاں سے ہے؟ کہاں تک ہے؟ کہاں جانے والا ہے؟ اس حصارِ نور میں داخل ہونے کے بعد مہمانِ ذی حشم حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عرشِ معلی کی سیر کی۔ اس کے بعد مہمانِ مکرم کو بڑی عزت، وقار اور تمکنت کے ساتھ آگے لے جایا گیا۔
مرحلہ ثالثہ۔۔۔ سدرۃالمنتہیٰ سے وصالِ اِلٰہی تک:۔
سدرۃالمنتہیٰ سے وصالِ اِلٰہی تک سفرِ معراج کا نقطہ عروج ہے۔ یہاں سے سفر کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ آگے ایک عالم نور تھا۔ اَنوار و تجلیاتِ الٰہی پرفِشاں تھے۔ اللہ رب العزت کی ذاتی اور صفاتی تجلیات سے بھرپور عالمِ لامکاں کے جلوے ہر سو جلوہ ریز تھے۔ مہمانِ عرش حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تن تنہا ان جلوؤں میں داخل کر دیا گیا۔ سب سے پہلے اللہ پاک کے اسماءکے پردے ایک ایک کر کے گزرتے رہے اور ہر اسم مبارک کے رنگ سے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو گزارا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم عالمِ بیداری میں تھے لہٰذا اس عجیب سی کیفیت کو دیکھ کر بتقاضائے بشریت کچھ معمولی سی وحشت بھی محسوس فرمانے لگے جیسا کہ انسان اکثر لمحاتِ تنہائی میں محسوس کرتا ہے۔ جونہی حضور پرنور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قلبِ اقدس پر یہ کیفیت وارد ہوئی اللہ رب العزت کی طرف سے آواز آئی:پیارے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم رک جاؤ! بے شک تمہارا رب (استقبال کے لئے) قریب آ رہا ہے۔
سفرِ وصال :۔
معجزہ معراج میں یہاں تک کا سفر، سفرِ محبت و عظمت تھا۔ اب یہاں سے آگے سفرِ وصال شروع ہوتا ہے۔ سفرِ معراج کے اس مرحلہ پر مہمانِ عرش حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مقامِ ”قاب قوسین“ پر پہنچ گئے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:پھر (اس محبوبِ حقیقی سے) آپ قریب ہوئے اور آگے بڑھےo پھر (یہاں تک بڑھے کہ) صرف دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔
یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ دو قوسوں پر بات ختم نہیں کی بلکہ قرب اوبعد کے تمام جھگڑے ختم کرنے کے لئے تمام حدوں کو توڑ دیا، تمام فاصلے مٹا دیئے، تمام فاصلے یکسر ختم کر دیئے، سوائے ایک فرق کے کہ وہ خدا تھا۔۔۔ خدائے لاشریک اور یہ اس کے محبوب بندے اور رسول تھے۔ وہ خالق تھا اور یہ مخلوق۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :پس وحی کی اپنے بندے کی طرف جو کہ اس نے وحی کیo
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ محب اور محبوب کے درمیان تنہائی کی ملاقات میں جو باتیں ہوئیں ان کا بیان بھی نہیں فرمایا لہٰذا محب اور محبوب میں کیا کیا باتیں ہوئیں، اس کلام کی حقیقتوں کی کسی کو کچھ خبر نہیں۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فقط اتنا بیان فرمایا کہ جب ملاقات ہوئی تو خالقِ کائنات نے فرمایا :اے نبی! تمہارے اوپر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکتیں ہوں۔حضور پر نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے رحمت کے اس پیغام کے جواب میں عرض کیا :سلام ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر۔اور پھر واپسی پر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو امت کے لئے پچاس نمازوں کا تحفہ عطا کیا گیا جسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ تعالیٰ کی ذاتی و صفاتی تجلیات اور تمام فیوض و برکات سمیت واپس کرہ ارضی کی طرف پلٹے۔
سفرِ معراج سے کرہ ارض کی طرف واپسی:۔
سفرِ معراج محبت و عظمت کا سفر تھا۔ اس سفر سے اہلِ ارض کی طرف واپسی بھی محبت اور عظمت کی مظہر تھی۔ بعض کتبِ تفاسیر میں اس امر کی تصریح کی گئی ہے کہ واپسی پر بھی حضور پر نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں برّاق پیش کیا گیا۔ اس کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم واپس مکہ مکرمہ تشریف لائے۔ جیسے جاتے ہوئے ہر آسمان پر ایک برگزیدہ نبی اور ملائکہ کے ساتھ ملاقات کا مفصل ذکر ہے ایسے ہی واپسی پر تفصیلی ملاقاتوں کا ذکر موجود نہیں لہٰذا واپسی کی تفصیلات اور جزئیات اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ہی معلوم ہیں۔صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دیگر کتبِ حدیث میں معجزہ معراج کا تفصیل سے ذکر ملتا ہے۔
واپسی کے دوران چھٹے آسمان پر جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ملاقات ہوئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! اللہ رب العزت کی بارگاہ سے اپنی امت کے لئے کیا تحفہ لائے ہیں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے میری امت کے لئے پچاس نمازیں یومیہ عطا کی ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ میں نے اپنی امت پر بہت محنت و مشقت کی تھی جس سے حاصل ہونے والے تجربے کے نتیجے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم واپس تشریف لے جائیے اور اللہ کی بارگاہ میں نمازوں میں تخفیف کی درخواست کیجئے۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! آپ کی امت پچاس نمازوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گی۔حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس مشورے پر عمل کیا اور وہاں سے پلٹے اور ربِ کائنات کے دربارِگہر بار میں حاضر ہوئے اور امت کے لئے پچاس نمازوں میں کمی کی اِستدعا کی۔ اس طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیثِ مبارکہ کے مطابق اس مرتبہ پانچ نمازیں کم ہوئیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! یہ بوجھ بھی زیادہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم پھر بارگاہِ ایزدی میں ملتجی ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے مزید پانچ نمازوں کی کمی فرما دی۔
یہ سلسلہ چلتا رہا اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نو بار اللہ رب العزت کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور صرف پانچ نمازیں باقی رہ گئیں۔ صحیح بخاری میں مروی حدیثِ مبارکہ کے مطابق چار مرتبہ دس دس نمازوں کی ۔اور پانچویں مرتبہ پانچ نمازوں کی کمی ہوئی۔ غرض جب پانچ نمازیں رہ گئیں تو موسیٰ علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پھر گزارش کی کہ آپ کی امت یہ پانچ نمازیں بھی پوری طرح ادا نہیں کر سکے گی لہٰذا ایک بار پھر بارگاہِ خداوندی میں التماس گزاریں۔ اس پر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : اب کی بار مجھے جاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ (حدیث کے اَلفاظ اشارہ کر رہے ہیں کہ اللہ کی طرف سے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بات ٹالنے کا تصور ہی نہیں یعنی اگر ایک مرتبہ پھر حاضری ہو جاتی تو مزید کمی بھی ہو سکتی تھی مگر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم خود ہی حاضر نہ ہوئے) پھر جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم وہاں سے چلے تو اوپر سے آواز آئی کہ اے محبوب! نمازیں تو میں نے پانچ کر دی ہیں لیکن ان پانچ نمازوں کے ادا کرنے پر ثواب تیری امت کو پچاس نمازوں کے برابر ہی ہو گا۔
اس متبرک رات امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کو نماز کا تحفہ دیا گیا ‘ لہذا یہ عمل نہایت موزوں ہے کہ اہل اسلام اس رات قضاءعمری ‘صلوٰۃالتسبیح اور دیگر نوافل کا اہتمام کریں، قرآن کریم کی تلاوت کریں اور کثرت سے درود شریف پڑھیں۔حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے الغنیۃ لطالبی طریق الحق میں اپنی سند کے ساتھ احادیث شریفہ روایت کی ہیں: ترجمہ:سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ستائیسویں رجب کا روزہ رکھا اس کے لئے ساٹھ(60) مہینے روزہ رکھنے کا ثواب ہے۔ (الغنی لطالبی طریق الحق)