احمد آباد کی رہنے والی عائشہ 25 فروری ندی کے کنارے آتی ہے اور ہنستے مسکراتے ایک ویڈیو پیغام ریکارڈ کرتی ہے اس کو دیکھ کر ایسا محسوس نہیں ہورہا تھا کہ وہ آنے والے چندلمحات کے بعد خود کشی کرنے والی ہے۔ اس نے اپنے ویڈیو پیغام میں بہت ساری باتیں کی ہے ۔
اس نے اس ویڈیو میں کہا کہ میں اللہ سے دعا کرتی ہو ںکہ وہ مجھے دوبارہ انسانوں کی شکل نہ دکھائے ۔ یہ ایک ایسا جملہ ہے جس انسانوں کو شرمسار کردیا ہے ۔ گویا وہ انسانوں کے رویے سے اس قدر تنگ آچکی تھی کہ وہ دوبارہ انسانوں کی شکل ہی نہیں دیکھنا چاہتی ۔
دنیا بھر میں خواتین کا استحصال کوئی نئی بات نہیں، صنفی امتیاز، گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی، ریپ اور معاشرے میں قدامت پسند روایات کے نام پر عورتوں پر ظلم وستم اور تشدد ہوتا رہتا ہے ۔ موجودہ دور میں تو جہیز اورگھریلو تشدد کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔ جہیز کے لین دین کی وجہ سے معاشرہ میں دیندار سمجھے جانے والا ایک عام آدمی بھی لالچ کا شکار ہوجاتا ہے۔
جہیزکی لعنت کی وجہ سے آئے دن لڑکیوں پر سسرال والوں کی جانب سے ہر قسم کا تشدد کیا جاتا ہے ۔ کسی کے گھر میں لڑکے کی شادی کے لئے رشتوں کے آغاز کے ساتھ ہی جہیز کا تصور ذہن میں آنے لگتا ہے اور خود گھر کی عورتیں لڑکی والوں سے ہر قسم کے جہیز کی نہ صرف توقع کرتے ہیں بلکہ اکثر وبیشتر مقامات پر جہیز کی فہرست ہی دلہن والوں کو تھمادی جاتی ہے۔
اور جہیز نہ لانے والی دلہن کے ساتھ انتہائی منفی رویہ اختیا ر کیا جاتا ہے پھر وہیں ساس ، نند ، دیگر رشتوں کی شکل میں عورتیں ہی اپنے بیٹے کو جہیز لانے پر اکساتے ہیں نہ لانے پر تشدد پر آمادہ کرتے ہیں۔
احمد آباد کی عائشہ کے معاملے میں بھی یہی کچھ صورت حال میڈیا رپورٹس کے مطابق ظاہر ہوئی ہیں اورمیڈیا کے مطابق اس پر ہر قسم کا تشدد کیا گیا جس سے عاجز آکر عائشہ نے یہ انتہائی قدم اٹھایا اور پھر اس نے اپنے ویڈیو پیغام میں یہ الفاظ تک کہہ ڈالے کہ اللہ دوبارہ مجھے انسانوں کی شکل نہ دکھائے۔
جہیز کی لعنت اور گھریلو تشدد کے باعث پھر کوئی عا ئشہ اس طرح کا قدم نہ اٹھائے اس کے لئے معاشرہ میں خواتین بالخصوص نوجوانوں میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کے واقعات کا سد باب ہو۔