قومی دار الحکومت شمال مشرقی دہلی میںگذشتہ سال 23 فروری کو فساد کے شعلے بھڑک اٹھے تھے۔ 23 تا 27 فروری تک جاری رہنے والے اس فساد میں 50 سے زائد افراد ہلاک اور کم از کم ڈھائی سو لوگ زخمی ہوئے تھے۔ کئی دنوں تک بے گور و کفن لاشیں شہر کے نکاس کی نالیوں میں پڑی رہیں۔
دہلی فسادات کے ایک برس مکمل ہونے پر سول سوسائٹی کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اصل ملزمین اب بھی کیفر کردار تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔
دارالحکومت دہلی میں تشدد کا سلسلہ 23 فروری کو شہریت ترمیمی قانون کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان پتھراؤ سے شروع ہوا۔ دراصل 23 فروری 2020 کو ترمیم شدہ شہریت قانون کے خلاف بھیم آرمی نے ملک گیر ہڑتال کی کال دی تھی۔ بھیم آرمی کی اس کال پر 500 سے 1000 خواتین دہلی کے سیلم پور روڈ کے علاقہ میں دھرنے پر بیٹھ گئیں۔
اسی دوران بی جے پی کے رہنما کپل مشرا نے 23 فروری کو سی اے اے مخالف مظاہرین کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تین دن میں جعفر آباد اور چاند باغ کی سڑکیں خالی نہیں کرائی گئیں تو اس کے بعد وہ پولیس کی بھی نہیں سنیں گے۔
کپل مشرا نے جس جگہ یہ بیان دیا وہاں شمال مشرقی دہلی کے ایک اعلیٰ پولیس افسر بھی موجود تھے۔ اس تقریر کے بعد 24 فروری کو سی اے اے مخالف مظاہرین اور حامیوں کے درمیان پتھراؤ اور مختلف مقامات پر آگ زنی کا سلسلہ شروع ہوا۔ ساتھ ہی یہاں خونریزی اور قتل و غارت گری کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔
فسادات کے دوران دہلی پولس کے کردار پر اُنگلیاں اٹھائی گئیں۔ پولیس پر کہیں جانبداری کا الزام لگا توکہیں انہیں خاموش تماشبین کی حیثیت سے بھی دیکھا گیا۔
لیکن اس کے برعکس دہلی فسادات میں وحشت اور خون خرابے کے دوران فرقہ ورانہ ہم آہنگی کی کچھ مثالیں بھی دیکھنے کو ملیں۔ جب فساد زدہ علاقوں میں حملے کیے جا رہے تھے اس وقت مسلم اکثریتی علاقہ وجے پارک کے لوگ مندروں کی حفاظت میں مصروف تھے۔
اسی طرح کردم پوری میں بھی جہاں اقلیتی فرقے سے وابستہ لوگوں کی آبادی مقابلتاً زیادہ تھی، وہاں بھی مسلمانوں نے فرقہ ورانہ اتحاد کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ خود کردم پوری کے برادران وطن نے اس بات کی گواہی دی کہ جب مشرقی دہلی کو جلایا جا رہا تھا تب علاقے کے مسلمان ان کی حفاظت میں مصروف تھے۔
دہلی فسادات پر مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں اور تظیموں نے مرکزی اور دہلی سرکار سمیت دہلی پولس پر شدید نکتہ چینی کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 28 اگست کو جاری اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کئی سیاسی رہنماؤں اور دہلی پولس پر سنگین سوالات اٹھائے ۔ اس رپورٹ میں پولس کے کردار کی جانچ کا مطالبہ کیا گیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے سماجی کارکنان اور طلباء کو نشانہ بنانے کا معاملہ بھی اٹھایا۔ وہیں، دہلی اقلیتی کمیشن نے 16 جولائی کو دہلی فسادات پر اپنی تحقیقاتی رپورٹ جاری کرتے ہوئے ان فسادات کو پوگروم یعنی نسل کشی قرار دیا۔
اقلیتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اسے ایک مخصوص فرقے کو دانستہ طور پر نشانہ بنانے کی منصوبہ بند کوشش بتایا۔ اقلیتی کمیشن کی رپورٹ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ یہ تشدّد سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ سبق سکھانے کے لیے کیے گئے تھے۔
دہلی فسادات کے متاثرین میں چند سرکاری اہلکار شامل بھی ہیں اور اکثریتی و اقلیتی فرقوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے عام شہری بھی۔ یہ سبھی متاثرین ایک برس مکمل ہونے کے بعد بھی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کی داد رسی ہوگی اور انہیں انصاف ملے گا۔
اب دیکھنا ہوگا کہ حکومت وقت متاثرین کو انصاف فراہم کرنے میں کب اور کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔