مغربی تہذیب نے سماج میں ’’اولڈ ایج ہوم‘‘(بیت المعمرین) کے قیام کو فروغ دیا ہے جس سے مغربی ممالک کے معمر افراد اذیت و تکلیف محسوس کر رہے تھے اور اب یہی صورتحال مشرق میں بھی درآئی ہے ، مشرقی تہذیب میںپہلے ضعیفوں اور بزرگوں کو آنکھوں پر بٹھایا جاتا تھا، ان کی خدمت کو دنیا و آخرت میں باعث سعادت جانا جاتا تھا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کر کے ان سے دعائیں لی جاتی تھیں، لیکن ا ب صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے، ایک ماںباپ کے کئی بچے ہوں توہر ایک اپنے ماں باپ کی خدمت کو بار گراں سمجھتے ہوئے راہ فرار اختیار کئے ہوئے ہے ، ہر ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے اس طرح ہر کوئی اپنا دامن بچانے میں مصروف ہے۔
انسان کی زندگی کے تین ادوار ہیں،بچپن ، جوانی، پھربڑھاپا،نظام فطرت یہی ہے ،ارشاد باری ہے’’اور جسے ہم بوڑھا کرتے ہیںاُسے پیدائش کی حالت کی طرف لوٹا دیتے ہیں ، کیا وہ پھر بھی نہیں سمجھتے‘‘ ۔ومن نعمرہ ننکسہ فی الخلق أفلا یعقلون (یٰس؍۶۸)یعنی جس کو ہم طویل عمر دیتے ہیں اس کی طبعی قوتوں کو کمزور کردیتے ہیں جیسے تخلیق کے پہلے ادوار میں بے بس و ناتواں تھا ویسے ہی بڑھاپے میں کمزور ومجبور بنادیتے ہیں ،دم بدم قوت و طاقت مضمحل ہونے لگتی ہے،جسمانی کمزوری کے ساتھ عقل و ادراک ،فہم و شعور بھی بتدریج رخصت ہونے لگتے ہیں ،پہلے جیسا حافظہ نہیں رہتا بسااوقات عزیز و اقارب دوست احباب کی پہچان بھی باقی نہیں رہتی ،شباب کے رخصت ہوتے ہی کسی سہارے کے بغیر نِشِست و بَرخاست بھی مشکل ہوجاتی ہے،سماعت بھی کمزور ہوجاتی ہے،بینائی بھی جواب دینے لگتی ہے ،بچپن میں جو دانت مشکل سے نکلے تھے بڑھاپے میں وہ بڑی تکلیف کے ساتھ گرنےلگتے ہیں ،اللہ سبحانہ نے اس آیت پاک میں اس کی عکاسی کی ہے ’’اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفًا وَّ شَیْبَۃً یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ ہُوَ الْعَلِیْمُ الْقَدِیْرُ (سورۂ روم ؍۵۴) اللہ تعالی وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا ، پھر اس کمزوری کے بعد توانائی بخشی ، پھر اس توانائی کے بعد کمزوری اور بڑھاپے سے دوچار کردیا جیسےوہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ، وہ خوب جاننے والا اور قدرت والا ہے ۔
وَاللهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ ۚ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ اِلٰىٓ اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ اِنَّ اللهَ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ (النحل ؍ ۷۰)
اللہ سبحانہ تعالیٰ نے تمہیں پیدا فرمایا پھر وہی موت کی منزل تک پہونچائے گا اور تم میں سے بعض ایسے ہیں جنہیں ناکارہ عمر کی طرف لوٹادیتے ہیں کہ بہت کچھ جاننے بوجھنے کے بعد ایسے ہوجاتے ہیں جیسے کچھ جانا بوجھا ہی نہیںبےشک اللہ سبحانہ دانا اور قدیر ہے۔
قدرت ِخداوندی کی کرشمہ سازیاں ، آفاق و انفس میں پھیلی ہوئی ہیںکائنات میں غور و فکر سے معرفت الہٰی کے دروازے کھلتے ہیں ،اپنے اندر جھانکنے سے خود اپنا عرفان حاصل ہوتا ، اس آیت پاک میں انسان کی تخلیق پھر اس کی وفات کے تذکرہ کے ساتھ کچھ انسانوں کے زیادہ کہنہ عمر تک پہونچادئے جانے کا ذکر ہے،اس میں بھی غور و فکر کی دعوت ہے ،پیدائش کا ابتدائی زمانہ جسمانی وذہنی کمزوری کا ہے ، اللہ سبحانہ نے کیسے اس کی نشوونما کاانتظام فرمایااور کیسے اس کی کمزوری کو طاقت و قوت میں تبدیل فرمایااور کیسے ایک کمزور انسان کو توانا و تندرست بھرپور طاقت کا کڑیل نوجوان بنایا ،بچپن شباب میں تبدیل ہوگیا ،پھر بتدریج ،شباب کی منزل سے شیخوخت یعنی بڑھاپے کی منزل سے دوچار ہوا کہ جسمانی و دماغی قوتیں جواب دینے لگیں،بچپن کی طرح پھر کمزوری ولاچاری دامن گیرہوگئی،عمر کی زیادتی و کہنگی بسااوقات مصائب وآلام کے پہاڑ کھڑے کردیتی ہے ،جسمانی و ذہنی قوی کے اضمحلال کے ساتھ اور اعضاء کی کارکردگی انحطاط کا شکار ہوجاتی ہے ،سماعت جواب دینے لگتی ہے ،آنکھوں کے روشن چراغ بھجنے لگتے ہیں،ان سارے منازل میںعبرت ونصیحت اور موعظت کا عظیم درس ہے ۔سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کی کہنگی سے پناہ چاہی ہے ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ اَنّ اُرَدَّاِلٰٓی اَرْذَلِ الْعُمُرِ(السنن الکبری للنسائی ۴؍۴۵۵) اے اللہ میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں کہنہ عمر کی منزل میں پہونچادیا جائوں۔
ایمان پر استقامت ،جسمانی صحت و عافیت ،اعمال صالحہ اور ذکر و اذکار پرمواظبت کی توفیق کے ساتھ اللہ سبحانہ جنہیں طویل عمردیں وہ خوش قسمت ہیںکیونکہ حسن عمل کی توفیق کے ساتھ درازیٔ عمر اللہ سبحانہ کا انعام ہے اس کے برعکس طویل عمر پانے والےایمان و اعمال صالحہ سے محروم ہوںتو ان کے حق میںعمر کی زیادتی محرومی کا باعث ہے ،سیدنا محمد رسول اللہ ﷺکی خدمت اقدس میںایک شخص حاضر ہوا اورعرض کیا یا رسول اللہ (ﷺ) کونسا انسان بہتر ہے تو آپ (ﷺ )نے فرمایا جو طویل عمر پائے اور اسے اعمال حسنہ کی توفیق ملے پھر عرض کیا کونسے لوگ برے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا وہ جو طویل عمر پائے اور برے اعمال کے مرتکب رہے ۔ من طال عمرہ و حسن عملہ ، قال : فای الناس شر؟ قال: من طال عمرہ و ساء عملہ ۔ ایک اعرابی (دیہاتی) آپﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کونسے لوگ بہتر ہیں توآپ ﷺ نے فرمایا جنہیں عمر دراز ملی ہواورانہوں نے اچھے اعمال کا ذخیرہ جمع کرلیا ہو، جاء اعرابی الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال : یا رسول اللہ ای الناس خیر؟ قال: طوبی لمن طال عمرہ و حسن عملہ (شرح السنۃ للبغوی ۲؍۳۷۹) ایک اور حدیث پاک میں وارد ہے ،الاانبئکم بخیارکم ؟ قالوا بلی یا رسول اللہ قال خیارکم اطولکم اعمارا و احسنکم اعمالا (سنن البیہقی الکبری ۳؍۳۷۱) ۔
یقینا ًجوانی کا زمانہ طاقت و قوت سے بھرپور زمانہ ہے، جوانوں کے عزم و حوصلے بھی بلند رہتے ہیں، وہ چاہیں تو اپنی جوانی کے زمانہ کو ایک مثالی زمانہ بنا سکتے ہیں ۔تحصیل علم کی مشغولیت ،تحقیق و جستجو،شعور وآگہی سے خود بھی بھرپور فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور دوسروں کو فائدہ پہونچا سکتے ہیں ، تعلیم و تربیت سے آسمان کی بلندیوں کو چھوسکتے ہیں جس سے خود ان کی ذات اور خاندان کو نفع پہنچتا ہے ،علم و فن میں کمال طرز زندگی میں رکھ رکھائو،اخلاق و کردار کی بلندی سے دونوں جہاں کی سعادتیں میسر آسکتی ہیں،اور ایسے افراد ملک و قوم کا ایک عظیم سرمایہ ثابت ہوسکتے ہیں،بڑے بزرگوں کی تعظیم ان کا احترام اور ان کے ساتھ حسن سلوک بھی تعلیم و تربیت کی دین ہے ، تاہم توفیق الہٰی کے بغیر ان سعادتوں کی تحصیل آسان نہیں ۔
جسمانی طاقت و قوت اورذہنی صلاحیت دو ایسی قوتیں ہیں جن کو کام میں لایا جائے تو بڑے کارہائے نمایاں انجام دئے جاسکتے ہیں، اس لئے جوانی کا زمانہ بڑا قیمتی ہوتا ہے لیکن جب بڑھاپا طاری ہوجائے اور خاص طور پر کہولت کی منزل پر پہنچ جائے تو دوسروں کی خدمت یا خلق خدا کو نفع پہونچانا تو رہا ایک طرف اپنی خدمت بھی مشکل ہوجاتی ہے۔
بچپن کا زمانہ کمزوری و ناتوانی کا ہوتاہے لیکن ماں باپ اور دیگر رشتہ داربچوں کی طرف خصوصی توجہ کرتے ہیں، خاص طورپر ماں باپ اپنے راحت و آرام کو قربان کرکےاپنی اولاد کوراحت و آرام پہونچاتے ہیں، خود بھوکے رہ کر ان کو کھلاتے ہیں، رنج و غم کا کوئی سایہ ان پر پڑنے نہیں دیتے، ایسی محبت اور ایسا چاؤ ان کو ملتا ہے کہ وہ گلشن حیات کے دکھوں اور غموں سے بے نیاز مسرت و شادمانی سے بھر پور چین و سکون کی زندگی گزارتے ہیں، جبکہ بڑھاپے کا زمانہ بھی بچپن ہی کی طرح کمزوری و محتاجی کا ہوتا ہے لیکن عام طور پر ان کو وہ محبت و چاہت نہیں ملتی جس کی ان کو ضرورت ہوتی ہے اور کماحقہ ان کی ایسی خدمت بھی نہیں ہوپاتی جیسی ہونی چاہئے، بچپن اور بچپن کے بعد کے زمانہ میں ماں باپ اپنا سب کچھ کھوکر اولاد کو بنانے، سنوارنے اور ان کو ترقی و عروج کے آسمان پر پہونچانے کیلئے خود کو گھلاتے ہیں،اور اپنا راحت و آرام سب کچھ بھول بھال جاتے ہیں لیکن یہی ماں باپ جب بوڑھے ہوجاتے ہیں تو وہ اولاد جو ماں باپ کی قربانیوں کی وجہ پروان چڑھی ہے اور ترقی کے آسمان کو چھوسکی ہے ان کی قربانیوں کو یکسر فراموش کر دیتی ہے اور اپنے ضعیف ماں باپ کے ساتھ وہ حسن سلوک نہیں کرپاتی جس کے وہ حقدار ہوتے ہیںیا کم از کم اتنی خدمت و دلجوئی بھی نہیں ہوتی کہ جس کی وجہ کچھ نہ کچھ درجہ میں ان کا حق ادا ہوسکے اور ان کے غمزدہ دل کو تسلی مل سکے۔ ماں باپ کی جسمانی طاقت برقرار ہو، وہ کماتے کھاتے ہوں اور اپنے بل بوتے پر اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل پرقادرہوں تو ان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ، تاہم ان کے ساتھ اچھا برتائو،حسن سلوک ،تعظیم و احترام اور دلجوئی اولاد پر بہر صورت میں فرض ہے ،
مسئلہ تو ان ماں باپ کا ہے جو ایسے بوڑھے ہوچکے ہیں کہ وہ اوروں کے تعاون کے بغیر کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتے،آگے قدم بڑھانا چاہیں تو سہارے کے بغیر قدم آگے نہیںبڑھاسکتے، کچھ تھامنا چاہیں تو از خود تھام نہیں سکتے ، اپنی بنیادی ضروریات از خود پوری کرنے سے عاجزو قاصر ہوجاتے ہیں، ایسے میں بچپن ہی کی طرح بڑھاپے میں سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے،ایسے سہارے جوخلوص ومحبت ، سلوک و خدمت سے بھرپور ہوں، ایسے رویے و برتائو جو ان کی ڈھارس بندھاسکیں ،ایسی تسلی اور پیاربھری گفتگو جو ان کی مایوس زندگی کو آس میں بدل سکے ،ایسی خدمت جو ان کے مغموم دل کوراحت و ٹھنڈک پہونچا سکے، بڑے بزرگ کہا کرتے ہیں اولاد عصائے پیری ہوتی ہے جیسے عصابوڑھے آدمی کا سہارا ہوتا ہے اسی طرح اولاد بھی ماں باپ کی ضعیفی میں ان کا سہارا بنتی ہے ۔اسلام نے خالق و مخلوق ہر ایک کے حقوق متعین کردیئے ہیں، خاص طور پر مخلوق میںبوڑھوں ضعیفوں کے حقوق کی بڑی تفصیل بیان کی گئی ہے، اسلام نے ان کی بنیادی ضروریات و احتیاجات کی تکمیل کو واجب کیا ہے،
اگر وہ مال نہ رکھتے ہوں یا کمانے کھانے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوں تو ان کی یہ ذمہ داری اسلام نے اولاد پر عائد کی ہے، اولاد نہ ہو تو دیگر رشتہ دار درجہ بدرجہ اس کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں۔ بڑھاپا بہت سے مشکلات اپنے ساتھ لاتا ہے،مالی مشکلات بھی کمزوری وضعیفی اور بیماریوں کی وجہ درپیش مسائل بھی،بڑھاپے میں نفسیاتی الجھنیں بھی دامنگیرہوجاتی ہیں، ان ساری مشکلات اور الجھنوں سے نجات پانے کیلئے وہ سہارے کے متمنی رہتے ہیں ،ان کی دلی تمنا وآرزو ہوتی ہے کہ کوئی ان سے پیار بھری گفتگو کرے، کہنے سے زیادہ گوش سماعت کھلی رکھے اور خوب خوب سنے کہ ان کا دل ہلکا ہوجائے پھر کہنے کی نوبت آئے تو ایسی بات کہے جس میں ضعیف ماںباپ اپنی نفسیاتی الجھنوں کا حل پاسکیں اور ان کو گفتگو سے ایسی تسلی وتشفی حاصل ہو کہ وہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کریں،لب و لہجہ اس قدر نرم وشگفتہ اور دل رکھنے والا ہو جس سے ان کے دل کو راحت وٹھنڈک مل سکے ، یہ ارشاد باری ہر آن پیش نظر رہے ،ولاتقل لہما اف یہ بڑی خوشی کی بات ہیکہ موجودہ دور نے ترقی کے منازل طئے کرلئے ہیں جس سےمادی آرام و آسائش کے کافی سامان مہیا ہوگئے ہیں لیکن اس کے ساتھ ایک افسوسناک اور تلخ حقیقت کا اس وقت سامنا ہے اور وہ ہے اخلاقیات کا زوال و انحطاط۔ اس کی وجہ جہاں زندگی کے کئی ایک گوشوں پر اس کا اثر مرتب ہوا ہے وہیں سماج کے ضعیف اور بزرگ بھی اس کی زد میں ہیں، اس وقت ہر ایک کو معاشی و مادی ترقی مطلوب ہے اس کیلئے وہ دور دراز ملکوں کا سفر کرنے اور وہاں مشقتیں و کلفتیں برداشت کرنے بھی تیار ہیں تاکہ وہاں پائے جانے والے روزگار کے مواقع سے بھر پور استفادہ کیا جاسکےاورخوب دنیا سمیٹی جاسکے ۔
صبر و قناعت رخصت ہونے کی وجہ ہر کوئی ’’ھل من مزید‘‘ کے ورد میں مصروف ہے،مشاہدہ ہے کثرت مال و دولت کی خواہش ،آرام و آسائش کے اسباب جمع کرنے کی طلب نے انسان کو خودغرض بنادیا ہے ، اس وجہ سے بھی بزرگوں سے بے اعتناعی بڑھتی جارہی ہے اور زندگی اس قدر مصروف ہوگئی ہے کہ اولاد کو اپنے ضعیف والدین کے ساتھ کچھ لمحے گزارنے کی فرصت بھی نہیں ہے، گھڑی دو گھڑی وہ ان کے پاس بیٹھنے کی روادار نہیںہے، بوڑھے اور ضعیف اپنا دکھ درد کسی کو سنانا چاہیں تو کوئی دستیاب نہیں ہے، اسلئے وہ ٹھنڈی سانسیں لیتے ہوئے اور آہیں بھرتے ہوئے اپنی بچی کچی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، دوسروں کے درد و کرب کے احساس سے اس وقت بڑی محرومی ہے جس سے موجودہ دور کے بزرگ والدین اور ضعیف العمر افراد کیلئے مسائل کھڑے ہوگئے ہیں۔
ایک اخباری اطلاع کے مطابق ہالینڈ کے بیت المعمرین (اولڈایج ہوم) کے ذمہ داروں نے بوڑھے افراد کی تنہائی کو دور کرنے کی غرض سے کالجوں و یونیورسیٹیوں میں تعلیم حاصل کرنیوالے نوجوانوں کو اس (Old Age Home) میں مفت رہائش فراہم کرنے کا پیشکش کیا ہے اور شرط رکھی ہے کہ اس کے عوض وہ نوجوان طلباء کم ازکم یومیہ ایک گھنٹہ بیت المعمرین میں فروکش ضعیفوں اور بیماروں کیساتھ گزاریں اور ہر طرح ان کی دلجوئی کریں اس سہولت سے نوجوان طلباء استفادہ کرتے ہوئے بڑے بزرگوںکی دلجوئی میں مصروف ہیں اولڈیج ہوم کے ذمہ داروں کا ماننا ہے کہ اس تدبیر کے اچھے نتائج دیکھے جارہے ہیں۔ انسان چاہے کتنے ہی مادی سہارے تلاش کرلے وہ سکون نہیںپاسکتاجو دلجوئی و خیر خواہی کے اظہار سے پاسکتا ہےیہ بھی ایک طرح سے مادی سہارا ہی ہے حقیقی سہارا ذکر الہٰی ہے ،نوجوان ہوں کہ ضعیف ،بوڑھے ، بزرگ ، ان کی تسکین قلب کا سامان اسی سے ہوسکتا ہے ، یقیناً قلب کی تسکین توپیدا کرنے والے خالق و مالک نے اپنے نازل کردہ احکام و ہدایات کی تعمیل میں رکھی ہے، الا بذکراللہ تطمئن القلوب اس سے روگردانی مسائل کی اہم وجہ ہے۔ خالق و مالک کی معرفت اور سرچشمۂ وحی کے فیضان سے محروم مغربی تہذیب نے سماج میں ’’بیت المعمرین‘‘ کے قیام کو فروغ دیا ہے جس سے مغربی ممالک کے معمر افراد اذیت و تکلیف محسوس کر رہے تھے اور اب یہی صورتحال مشرق میں بھی درآئی ہے ، مشرقی تہذیب میںپہلے ضعیفوں اور بزرگوں کو آنکھوں پر بٹھایا جاتا تھا، ان کی خدمت کو دنیا و آخرت میں باعث سعادت جانا جاتا تھا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کر کے ان سے دعائیں لی جاتی تھیں، لیکن ا ب صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے،
ایک ماںباپ کے کئی بچے ہوں توہر ایک اپنے ماں باپ کی خدمت کو بار گراں سمجھتے ہوئے راہ فرار اختیار کئے ہوئے ہے ، ہر ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے اس طرح ہر کوئی اپنا دامن بچانے میں مصروف ہے۔ کسی مفکر کا یہ قول قابل عبرت و نصیحت ہے کہ ’’ بالفرض کسی ماں باپ کے سو بچے ہوں تو وہ دل و جان سے ان کو پیار و محبت سے پال پوس کر بڑا کرسکتےہیں، لیکن سو بچے مل کر بھی اپنے ماں باپ سے حسن سلو ک کرکے ان کو خوشی نہیں دے سکتے‘‘۔ اس طرح کی کہاوت سے مقصود اس معاشرہ کی نشاندہی مقصود ہے جو بکثرت اس خرابی میں مبتلاء ہے، ورنہ اچھے لوگ تو ہر دور میں رہتے ہیںجو بزرگوں کی خدمت اور ان کی دلدہی کر کے انسانیت کی اعلیٰ مثال پیش کرتے ہیں،ایسے ہی نیک خوانسان بڑے بزرگوں کے ہی نہیں بلکہ ہر ایک انسان کے دل میں گھر کرجاتے ہیں ایسے بے مثال کردار کے حامل افراد ہی تاریخ کے زرین اوراق میں جگہ پاتے ہیں۔
اسلام نے ماں باپ اور بزرگوں کے بڑے حقوق بتائے ہیں جو تفصیل طلب ہیں تاہم یہ حدیث پاک لوح قلب پر
کندہ کرلی جائے تو ضعیف والدین اور بزرگوں کے ساتھ ہونے والی بے اعتناعی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔مااکرم شاب شیخالسنہ الاقیض اللہ لہ من یکرمہ عندسنہ(سنن ترمذی ۷؍۳۱۷) کوئی نوجوان کسی ضعیف و بوڑھے فرد کی کبرسنی کا لحاظ رکھتے ہوئے تعظیم وتکریم کریگا تو ضعیف العمری کے زمانہ میں اس کو ویسے ہی اللہ سبحانہ اکرام و احترام اور تعظیم کا اس کو مستحق بنائیںگے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انسانی سماج اخلاقی قدریں کھوچکا ہے ،موجودہ نئے دور کی ترجیحات بدل چکی ہیں ،معنوی منافع سے کہیں زیادہ مادی منافع عزیز ہیں،نیک بختیوں اور سعادتوں کی تحصیل کو کبھی عزیز تر مانا جاتا تھالیکن اب یہ تصور دل و دماغ سے محو ہوگیا ہے ،بدبختی و شقاوت کی شناعت کا کوئی تصور شائد ذہن کے کسی گوشے میں بھی موجود نہیں ہے ،اسی لئے اولڈ ایج ہومس بزرگوں کی پناہ گاہ بن گئی ہیں،غیر اسلامی و غیر اخلاقی تہذیب و کلچر نے انسانوں کے ضمیر کو مردہ کردیا ہے ،احساس کی نعمت سے انسان محروم ہوچکے ہیں ،زندگی دراصل دل کے زندہ رہنے کا نام ہے دل مردہ ہوجائیں تو انسان جیتے جی مردوں میں شمار کئے جانے کے قابل ہوجاتا ہے۔بقول کسے ؎
زندگی زندہ دلی کا نام ہے مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں
اس لئے صلحاءامت نے ہمیشہ اپنے دلوں کی زندگی کی فکر کی ہے اور اپنے متوسلین وابستگان کے دلوں کوزندہ رکھنے کی جہدمسلسل و سعی پیہم جاری رکھی ہے۔
مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مرجائے کہ زندگی عبارت ہے ترے جینے سے
مادی سہولیات ،آسائشات وتعیشات پہلے سے کہیں زیادہ انسانوں کی دسترس میں ہیں، لیکن ان میں ماں باپ جو ہمارے محسن و مربی ہیں اور اللہ سبحانہ کے بعد مخلوقات میں جن کا درجہ و مرتبہ افضل و اعلی ہے وہ ان سے محروم کردیئے گئے ہیں ان سہولتوں و آسائشوں میں وہ ماںباپ جنہوں نے اپنی خواہشات کو اولاد کی خوشی کیلئے قربان کردیا تھا،ہزاروں دکھ اٹھاکر ان کیلئے ہر طرح کی راحت و آرام کا سامان مہیا کیا تھا ،صد افسوس کہ آج اولاد کے وسائل حیات میںان کا کوئی حصہ نہیں ہے،اولاد کےلئے انہوں نے جو بھی مشقت و تکلیف اٹھائی تھی اس کے صلہ میں آج بھی وہ اولاد کی وجہ دکھ درد میں ہیں راحت و آرام کے بجائے درد و کرب سے دوچار ہیں،اپنے چہیتوںکی بے اعتنائی نے انہیں کسمپرسی کی زندگی جینے پرمجبور کردیا ہے۔ الامان والحفیظ ۔
الغرض اللہ سبحانہ نے اس دنیا کا نظام ایسا بنایا ہے جو’’ اِس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے‘‘ کے مصداق ہے۔کَمَا تَدِیْنُ تُدَانُ ۔جیسا کرو گے ویسا بھروگے،جو بوئوگے وہی کاٹوگے، جیسے محاورات اس کی تصدیق کرتے ہیں ،یہ محاورات گویا تجربات کا نچوڑ ہیں،انسان خواہ جوانی کی منزل میں ہو یا کبر سنی کی ،صلاح و تقوی ،کردار کی رفعت ہی سے عظمت و احترام کا مستحق بنتا ہے ،خیر و بھلائی وہی پاتے ہیں ،احترام و عظمت انہیں کے حصہ میں آتی ہے جو آخرت کی کامیابی کو پیش نظر رکھتے ہوئے بزرگ والدین اور بزرگ افراد انسانیت کے ساتھ اچھا برتائو کرتے ہیں ان کی خبرگیری اور ان کے ساتھ خیرخواہی کو عزیز از جان رکھتے ہیں ،اپنے اور اپنے اہل وعیال کےآرام و آسائش سے کہیں زیادہ بڑے بزرگوں کو راحت و آرام پہونچانے کی فکر کرتے ہیں،یہ وہ فکر و درد میں ڈوبے احساسات ہیں جنہیں انگلیوں کو خون میں ڈوبوکر لکھا جائے تب بھی کم ہے ،ان نازک احساسات کی موت نے انسانوں کا چین و سکون چھین لیا ہے ،معاشرہ کو راحت و آرام کا گہوارہ بنانے کی تمنا ہوتو پھرضمیر کو ٹٹولنے اور اس کی مردگی کا علاج کرکے اسلامی و روحانی قدروں کو پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے ،یہی وہ فطری پیغام ہے جس میں دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز پنہاں ہے۔