ملک بھر میں گذشتہ سالوں میں گائے کے نام پر تشدد میں کئی مسلم نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس تشدد میں کئی بے قصور افراد ہلاکت کا شکار ہوگئے ۔ گاؤ رکشک کے نام سرعام بے قصور مسلم اور دلت افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
کرناٹک میں متنازع انسداد گئو کشی قانون آج سے نافذ کردیا گیا ہے۔ گورنر نے اس قانون پر دستخط کرتے ہوئے منظوری دی ہے۔ اس قانون کے تحت سوائے بھینس کے گائے کی نسل کے کسی بھی جانور کو ذبح نہیں کیا جاسکے گا۔ بھینس کو بھی ذبح کرنے کے لیے اس کی عمر 13 سال سے زائد ہونی لازمی ہے۔
اس قانون میں تمام طرح کے مویشیوں کو ذبح کرنے پر پابندی ہے، سوائے ان بھینسوں کے جن کی عمر 13 سال سے زائد ہو۔ جو بھی شخص اس جرم میں ملوث پایا جائے گا اسے تین تا سات سال قید بامشقت اور جرمانہ کی سزا دی جائے گی۔ تاہم مذبحہ خانوں میں بیف کے خرید و فروخت پر پابندی نہیں ہوگی اور وہ ضابطے کے مطابق کام کرتے رہیں گے۔
اس قانون نے ریاست کی سیاست میں گرمی پیدا کردی تھی۔ کانگریس اور جنتا دل ایس نے اس قانون کی مخالفت کی تھی۔ یہ قانون کرناٹک میں انسداد گئو کشی اور تحفظِ مویشی ایکٹ 1964 کی جگہ لے گا۔
کرناٹک انسداد گئو کشی اور تحفظِ مویشی بل 2020 کو ریاستی اسمبلی کے سرمائی اجلاس میں منظور کیا گیا تھا لیکن قانون ساز کونسل میں تعطل کا شکار تھا۔ جس کے بعد وزیر اعلی بی ایس یدی یورپا نے ایک قانون تشکیل دیتے ہوئے اسے گورنر کے پاس دستخط کے لیے بھیجا جسے کچھ ہچکچاہٹ کے بعد منظور کرلیا گیا۔
قانون کے چند نکات :۔
جانوروں کی صرف زرعی مقاصد اور افزائش مویشیان کے تحت آمد و رفت کی اجازت ہوگی۔
ریاست میں جانوروں کی اسمگلنگ یا دوسری ریاستوں سے منتقلی قابل سزا جرم ہوگی۔
ریاست میں دوسری ریاستوں سے جانوروں کی منتقلی کے لیے انتظامیہ کی اجازت لینا لازمی ہوگا۔
ریاست میں زرعی کام میں جانوروں کے استعمال کے لیے مقرر کردہ فیس ادا کرنے کے بعد ہی استعمال کی اجازت ہوگی۔
جانوروں کو ذبح کرنے کے مقصد سے خریدنا ، بیچنا اور انہیں پالنا اور ذخیرہ کرنا وغیرہ پر پابندی عائد ہوگی۔
صرف جانوروں کے ڈاکٹرز کی اجازت پر بیمار گائیوں کو ذبح کرنے کی اجازت ہوگی۔
گئو کشی سے متعلق مقدمات کی تیز رفتار تحقیقات کے لیے ایک فاسٹ ٹریک عدالت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
پولیس اسٹیشنوں کو گئو کشی کو روکنے کا اختیار دیا جائے گا۔
Bjp govts should focus on crime against women and dowing DGP