اترپردیش اور مدھیہ پردیش میں بین مذہبی شادیوں کو روکنے کے لئے ’’ لو جہاد ‘‘ قانون بنایا گیا ہے۔جس کے تحت اگر کوئی مسلم لڑکا ہندو لڑکی سے شادی کرتا ہے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس کے برعکس اگر کوئی ہند ولڑکا مسلم لڑکی سے شادی کرتا ہے اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جارہی ہے اور نہ کی جائے گی ۔
ریاست مدھیہ پردیش کے بھرروانی میں ’’لو جہاد‘‘ قانون کے تحت پہلا مقدمہ اُس وقت درج کیا گیا جب ایک خاتون نے پولیس میں ایک مسلم شخص کے خلاف شکایت درج کی کہ جلد شادی کا وعدہ کرتے ہوئے ملزم اسکے ساتھ پچھلے چار سال سے جسمانی تعلقات قائم کر رہا تھااور شادی کے بہانے اسلام قبول کرنے پر مجبور کررہا تھا ۔
اطلاعات کے مطابق اس شخص نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھی تھی اور اسکے چار سال سے شکایت کنندہ خاتون کے ساتھ تعلقات تھے۔ اس دوران وہ جلد شادی کرنے کے وعدے پر اس خاتون کا جسمانی استحصال کرتا تھا۔
تھانہ انچارج راجیش یادو نے کہا کہ جب متاثرہ خاتون کو ملزم کے مذہب کا پتہ چلا تو اس نے رشتہ ختم کرنے کی کوشش کی۔ تاہم اس شخص نے خاتون کے ساتھ تعلقات کو عام کرنے کا انتباہ دیا ۔جب لڑکی نے یہ بات اپنے والدین کو بتائی تو انہوں نے ’’لو جہاد‘‘ قانون کے تحت پولیس میں شکایت درج کی۔ابتدائی تحقیق کے بعد پولیس نے سہیل اور سَنی منصوری کو گرفتار کر لیا ہے۔
واضح رہے کہ اترپردیش اور مدھیہ پردیش میں بین مذہبی شادیوں کو روکنے کے لئے ’’ لو جہاد ‘‘ قانون بنایا گیا ہے۔جس کے تحت اگر کوئی مسلم لڑکا ہندو لڑکی سے شادی کرتا ہے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس کے برعکس اگر کوئی ہند ولڑکا مسلم لڑکی سے شادی کرتا ہے اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جارہی ہے اور نہ کی جائے گی ۔