اسرائیل کی وزارت خارجہ کی ایک چھوٹی ٹیم عرب دنیا میں اپنے ملک کا اثر بڑھانے کیلئے سوشل میڈیا کو ہتھیار بناکر کام کررہی ہے۔
اس ٹیم کا مشن یہ ہے کہ سوشل میڈیا کو استعمال کرکے عرب دنیا کو صیہونی ریاست ’’اسرائیل ‘‘کوتسلیم کرانا ہے۔یہ ٹیم عربی زبان میں مختلف پلیٹ فارمس جیسے فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر اپنی مہم چلارہی ہے جو مشرق وسطیٰ میں عوام کے اندر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے کثیر نکاتی سفارتی کوششوں کا حصہ ہے۔
مگر یہ کوئی آسان کام نہیں، حالانکہ اسرائیل نے حالیہ مہینوں میں امریکہ کی مدد سے یو اے ای، بحرین، سوڈان اور مراقش سے مختلف معاہدے کیے ہیں۔اسرائیل کے متعلق عرب دنیا میں کے جذبات کو بدلنے کی اس مہم کے پیمانے کا اشارہ حال ہی میں ایک آن لائن تنازع سے ملتا ہے، جس میں مصر کے اداکار اور گلوکار محمد رمضان کی دبئی میں اسرائیلی سیلیبرٹیز کے ساتھ پارٹی کی تصاویر سامنے آئیں۔
اس اسرائیلی ٹیم نے ان تصاویر کو بعد میں پھر فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹس پر پوسٹ کیا، جس میں ایک تصویر میں محمد رمضان اسرائیلی پوپ اسٹار عمر ایڈم کا ہاتھ تھامے موجود تھے اور کیپشن میں لکھا تھا کہ ‘آرٹ ہمیشہ ہمیں قریب لاتا ہے’۔
اسرائیلی حکام تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کام بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ اس خطے میں اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینی عوام کی حمایت بہت زیادہ ہے۔مثبت ردعمل بھی سامنے آیا اور پرانی ذہنیت کو بدلنے کیلئے وقت لگے گا۔
اسرائیلی وزیراعظم کے ترجمان نے کہا کہ عرب عوام میں ایسے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے جو اسرائیل کو اتحادی کو طور پر دیکھتے ہیں اور متعدد کی جانب سے سوشل میڈیا پر کھلے عام تائید کررہے ہیں۔
اسرائیل ماضی میں مصر اور اردن سے کیے جانے والے امن معاہدوں کے مقابلے میں اب کیے جانے والے نئے معاہدوں کے ذریعہ وسیع پیمانے پر عربوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ مصر اور اردن سے اسرائیل نے بالترتیب 1979 اور 1994 میں امن معاہدے کئے تھے، جن کو ان ممالک کی قیادت نے تو برقرار رکھا مگر عوامی سطح پر ان کے حوالے سے مثبت رائے نہیں پائی جاتی۔