اترپردیش میں مبینہ لو جہاد کی بحث کے درمیان الہ آباد ہائی کورٹ نے اہم تبصرہ کیا ہے۔ عدالت نے اسلام قبول کرکے مسلم لڑکے سے شادی کرنے والی شائستہ پروین عرف سنگیتا کے معاملے پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ بالغ مرد اور عورت کی پُرامن زندگی میں کسی کو مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے۔
ریاست مدھیہ پردیش میں بین مذاہب جوڑوں کی شادی پر روک لگانے کے لیے قانون نافذ کردیا گیا ہے۔
گورنر آنندی بین پٹیل کے دستخط کے بعد محکمہ داخلہ نے یہ بل محکمہ قانون کو بھیجا تھا۔ یہاں سے اسے منظوری ملنے کے بعد سرکاری لسٹ میں اشاعت کے لیے نوٹیفیکیشن ڈال دیا گیا ہے۔
مدھیہ پردیش حکومت کے آزادئ مذہب بل کو 7 جنوری کو گورنر آنندی بین پٹیل نے منظوری دی تھی۔ وزراء کی کونسل سے منظوری کے بعد بل کے مسودہ کو اترپردیش گورنر ہاؤس بھیجا گیا تھا جہاں گورنر نے بھی اسے منظور کر لیا ہے۔
مدھیہ پردیش میں بین مذاہب شادی کو روکنے کے لیے شیوراج حکومت نے مذہبی آزادی سے متعلق بل لایا تھا۔ کابینہ سے منظوری ملنے کے بعد اس کو لایا گیا۔
وزراء کی کونسل کی منظوری کے بعد اس بل کے مسودہ کو اترپردیش گورنر ہاؤس بھیجا گیا تھا۔ گورنر نے بھی اسے منظوری دے دی۔
آزادیٔ مذہب قانون میں تجاویز :۔
مذہب تبدیل کرنے اور ورغلا کر شادی کرنے پر غیر ضمانتی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا۔ ساتھ ہی 10 برس قید کی سزا کی بھی تجویز ہے۔
مذہب تبدیل کروا کر شادی کرنے کے دو ماہ پہلے کلکٹر کو دونوں فریقین کی جانب سے تحریری درخواست دینا لازمی ہوگا۔ مذہب تبدیل کر کے شادی کروانے والے مذہبی پیشواؤں کو بھی شریک ملزم بنایا جائے گا اور پانچ برس قید کی سزا کی تجویز ہوگی۔
مذہب تبدیل کروانے یا شادی کرانے والی تنظیموں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائےگی۔
اس قانون کی ضرورت کیوں پڑی؟
حکومت کا کہنا ہے کہ مدھیہ پردیش کے مختلف اضلاع میں مبینہ لو جہاد کے سلسلہ میں کئی معاملات مسلسل سامنے آ رہے تھے۔ اس کے علاوہ مختلف پولیس اسٹیشنز میں اس قسم کی کئی شکایتیں بھی درج کی جا رہی تھیں جس کے بعد حکومت نے بین مذاہب شادی پر قابو پانے کے لیے ریاست میں سخت قانون نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس قانون کے تحت کم از کم 10 برس سزا کی تجویز ہوگی
وزیر اعلی کے احکامات پر اس قانون کا پورا مسودہ تیار کیا گیا اور کابینہ سے مہر لگنے کے بعد اس بل کو اسمبلی میں پیش کیا جانا تھا۔ تاہم کووڈ 19 کی وجہ سے اسمبلی کے سرمائی اجلاس کو منسوخ کر دیا گیا تھا جس کے بعد حکومت نے اب اس بل کو اسمبلی میں پیش کیا جسے گورنر کی منظوری بھی مل گئی ہے۔ اب اس بل نے باضابطہ قانون کی شکل اختیار کر لی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ تین سے چار دنوں کے بعد آگے کے مراحل طے ہو جائیں گے اور اس قانون کو ریاست میں نافذ کر دیا جائے گا۔
خیال رہے کہ اترپردیش میں مبینہ لو جہاد کی بحث کے درمیان الہ آباد ہائی کورٹ نے اہم تبصرہ کیا ہے۔ عدالت نے اسلام قبول کرکے مسلم لڑکے سے شادی کرنے والی شائستہ پروین عرف سنگیتا کے معاملے پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ بالغ مرد اور عورت کی پُرامن زندگی میں کسی کو مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے۔
عدالت نے اس جوڑے کو سکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت دینے کے ساتھ شوہر شاداب احمد کو تین لاکھ کی ایف ڈی کے ساتھ عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔
ہندوستانی آئین کے مطابق کوئی بھی بالغ مرد وعورت اپنی مرضی سے کسی سے بھی شادی کرسکتے ہیں تاہم اترپردیش مدھیہ پردیش میں ’لو جہاد’ قانون لایا گیا۔
عدالت نے اس معاملے پر سنوائی کے دوران تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ طے شدہ قانونی ضابطہ ہے کہ بالغ مرد اور عورت کی پُرامن زندگی میں کسی کو بھی مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے۔