مسلم دنیا

ضرورت مندوں کی مدد

سردی کا موسم ہمارے لئے کئی طرح کے سوغات لے آتا ہے ۔ یہ موسم جہاں طبی نقطہ نظر سے بہتر ہوتا ہے تو وہیں یہ موسم دینی اعتبار سے بھی بہترین ہوتا ہے۔

یہ موسم ہمیں عبادات اور خدمت خلق کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے، سخت سردی کی عبادات کی احادیث مبارکہ میں بڑی فضیلت بھی آئی ہے ۔ ہم میں سے ہر دویعنی غریب طبقہ اور صاحب دولت دونوں کے لئے نیکیاں حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے ۔ صاحب استطاعت شخص سردی کے لحاظ سے غریب افراد کی ضروریات کا خیال کرتے ہوئے انہیں گرم ملبوسات اور دیگر چیزیں فراہم کرکے ثواب حاصل کرسکتے ہیں ۔

شہر حیدرآباد سکینہ فاؤنڈیشن نامی تنظیم کی جانب سے ضرورت مند افراد میں گرم ملبوسات بالخصوص کمبل وغیرہ تقسیم کی گئیں۔

اگر یہی نظام محلہ واری سطح پر مخیر حضرات کی جانب سے کیا گیا تو محلے میں کسی بھی غریب اور ضرورت مند شخص کو تکالیف اور مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے گا۔

اسی طرح حیدرآباد میں غریب اور ضرورت مند افراد کی بھوک مٹانے کے لئے ایک ‘نیکی کی ٹوکری’ موجود ہے۔ اس ٹوکری سے ضرورت مند افراد بلا معاوضہ جتنی چاہیں روٹیاں لے جاسکتے ہیں۔
ضرورت مندوں کے لیے مدد کی قدیم روایت پر عمل کرتے ہوئے حیدرآباد میں تندور کی روٹی ‘نیکی کی ٹوکری’ کے نام سے رکھنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔

حیدرآباد میں نیکی کی ٹوکری کے نام سے کنگ کوٹھی جامع مسجد کے سامنے کی دکان پر ایک ٹوکری رکھی گئی ہے۔ اس ٹوکری میں غریب مستحقین کے لیے روٹیاں دستیاب ہیں۔

کنگ کوٹھی کے رہنے والے میر جمیل علی نصری نے چھ ماہ قبل ترکی ڈرامے کی ویڈیو سے متاثر ہو کر نیکی کی ٹوکری رکھی ہے اور وہ روزانہ صبح اپنی طرف سے 100 سے زیادہ حیدرآبادی نان روٹی، اس ٹوکری میں رکھتے ہیں۔
انہوں نے نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس نیک کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ کوئی بھی غریب بھوکا نہ رہ سکے۔

ریاست مہاراشٹر کے اورنگ آباد شہر میں بھی ضرورتمند اور مستحق افراد کی بھوک مٹانے کے لیے ‘نیکی کی ٹوکری’ کے نام سےانوکھی پہل کی گئی ہے جو اپنے آپ میں منفرد ہے۔

اورنگ آباد کے کچھ اہل خیر حضرات نے ‘نیکی کی ٹوکری’ عنوان سے مستحق لوگوں تک غذا پہنچانے کی کوشش شروع کی ہے۔ اورنگ آباد میں سب سے پہلے کٹ کٹ گیٹ پر یہ تجربہ کیا گیا جس کو دیکھتے ہوئے دوسرے علاقوں میں بھی اس پر عمل ہورہا ہے۔

‘نیکی کی ٹوکری’ کا رجحان کافی مقبول ہورہا ہے اہل خیر حضرات جو نان خریدنے آتے ہیں وہ کچھ اضافی نان خریدتے ہیں اور ‘نیکی کی ٹوکری’ میں ڈال دیتے ہیں جبکہ ضرورت مند افراد بلا معاوضہ اپنی ضرورت کے لحاظ سے نان لے کر جاسکتے ہیں۔

یہ کام خالص انسانی خدمت کے جذبے سے کیا جارہا ہے، لوگ دور دراز مقامات سے اس نیکی کی ٹوکری کو دیکھنے پہنچ رہے ہیں اور اس میں اپنا حصہ بھی شامل کررہے ہیں۔مقامی لوگوں کے مطابق ضروری نہیں کہ اس ٹوکری میں صرف نان ہی ڈالے جائیں، کوئی بھی چیز، جو مستحق افراد کی بھوک مٹاسکے وہ اس ٹوکری میں ڈالی جاسکتی ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کار خیر میں ذات اور مذہب سے اوپر اٹھ کر لوگ حصہ لے رہے ہیں۔بھوک ہر جاندار کا فطری تقاضہ ہے، انسان کی ساری محنت بنیادی طور پر بھوک مٹانے کے لیے ہوتی ہے لیکن جب ہم عالمی نقشے پر نظر ڈالتے ہیں تو اس ترقی یافتہ دور میں بھی انسان بھوک سے پریشان ہے۔

گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں بھوک سے پریشان لوگوں کی تعداد آٹھ سو ملین سے زیادہ ہے ان میں سے بھارت کی 23 فیصد آبادی یعنی بیس کروڑ سے زیادہ لوگ پیٹ بھر کھانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔

بھوک اور تغذیہ کے شکار 119 ممالک کی فہرست میں بھارت کا مقام 103 ہے، یہ اعداد و شمار کورونا وبا سے پہلے کے ہیں کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورت حال کے بعد موجودہ حالات کتنے تباہ کن ہیں اس کا تصور ہی محال ہے۔