ہندوستان کی شان ’’ کسان‘‘ کی حالت نہ آزادی کے پہلے بدلی تھی اور نہ ہی آزادی کے بعد ۔ کسانوں کی حالت جوں کی توں برقرار ہے۔ اور ان کے مسائل میں کمی کے بجائے دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا گیا ۔
انگریزوں کے دور میں کسانوں کی حالت بدلنے کے لئے کئی منصوبے لاگو کیے گئے لیکن وہ تمام بے سودثابت ہوئے ۔ اور اسی حالت کے ساتھ وہ اب بھی جینے پر مجبور ہیں۔ انگریزوں کے دور سے لیکر اب تک کسانوں نے کئی مرتبہ ملکی اور ریاستی سطح پر زبردست احتجاجی مظاہرے کیے لیکن یہ احتجاجی مظاہرے ان کی حالت میں تبدیلی کا باعث نہ بن سکے۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ کسانوں کی ناخواندگی اور غریبی تھی ۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ کسانوں کے نام پر ملک بھر میں کئ محکمے اور اسکیمات بنائیںگئیں اور کسانوں کے نام پر ہی بڑے بڑے رہنماؤں نے اپنی سیاست کو چمکایا ۔
کسانوں کا سب سے بڑا احتجاج آج سے 32 سال پہلے 1988میں قومی دار الحکومت دہلی میں ہوا جس میںلاکھوں کی تعداد میں کسان قو می دار الحکومت آئے تھے۔ 14 ریاستوں کے تقریبا 5 لاکھ کسانوں نے ایک ہفتے تک دہلی میں احتجاجی مظاہرہ کیا تھا جس کے باعث اس وقت کے وزیراعظم آنجہانی راجیو گاندھی کو ان کے مطالبات تسلیم کرنے پڑے تھے۔
اس کے بعد 2011 میں بٹہ پرسول سانحہ پرکسانوں کے احتجاج نے سب کو ہلاکر رکھ دیاتھا۔ جس میں پولیس اور کسانوں کے درمیان جھڑپ ہوئی اور ڈی ایم سمیت 60 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ اور اس سانحہ پر بھی خوب سیاست ہوئی لیکن نتیجہ صفر رہا۔
اور یہی کچھ صورت حال 2017 میں ریاست مدھیہ پردیش کے مندسور میں قرض معافی سمیت کئی مطالبات پر کسانوں نے احتجاج کیا جس کو روکنے کےلئے طاقت کا استعمال کیا گیا جس میں چھ کسانوں نے اپنی قیمتی جانیں گنوادیں۔ اس معاملے کی تحقیقات کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو اب تک یہ پتہ لگانے میں ناکام رہی کہ احتجاجی کسانوں پر فائرنگ کس نے کی تھی؟
ریاست اترپردیش اور مدھیہ پردیش میں تو قرض معافی کے نام پر کسانوں کے ساتھ انتہائی بھدا مذاق کیاگیا ۔ قرض معافی کے نام پرکسی کسان کے اکاؤنٹ میں دس روپے تو کسی کے اکاؤنٹ میں 11 روپیے تو کسی کے اکاؤنٹ میں ایک روپیہ ڈالا گیا۔ جو اس وقت میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا میں موضوع بحث بھی بنا ہواتھا۔
اور اسی سال دہلی کے جنتر منتر پر کسانوں نے قرض معافی کو لیکر ننگے بدن احتجاجی مظاہرہ کیا لیکن سابق کی طرح اس احتجاجی مظاہرہ کا بھی حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اسی دوران ریاست مہاراشٹر میں قرض معافی ہی کے مطالبے پر بڑے پیمانے پرانوکھے انداز میں احتجاج کیا گیا جس میں کسانوں نے احتجاجا دودھ اور سبزیاں سڑکوں پر بکھیر دی گئیں جس کے بعد ریاستی حکومت انہیں تیقن دیا کہ ان کے مسائل کو حل کیاجائے گا۔
اور اب 2020ستمبر میںمرکزی حکومت نے تین نئے زرعی قوانین منظور کیے جس کے خلاف ملک بھر میں کسانوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ اس دوران پنجاب، ہریانہ اور دیگر ریاستوں کے کسان وقتاً فوقتاً احتجاج کرتے رہے اور بعض اوقات ٹرینیں روک کر بھی مطالبات منوانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم نومبر کے آخری ہفتے میں یہ احتجاج مزید منظم ہوا اور بڑی تعداد میں کسانوں نے قومی دارالحکومت نئی دہلی کا رُخ کیا۔
اس دوران کسانوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں جس کے بعد کسانوں نے ملک کے دیگر شہروں کو دہلی سے ملانے والی اہم شاہراہوں کو بلاک کر کے دھرنا دے دیا ہے اور مطالبات کی منظوری تک احتجاج ختم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
مرکزی حکومت نے زرعی قوانین میں کیا تبدیلیاں کی تھیں؟
حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت کے باوجود زرعی اصلاحات سے متعلق تین بل منظور کیے تھے۔حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے الزام لگایا تھا کہ حکومت نے عجلت میں اپوزیشن کے تحفظات سنے بغیر بل منظور کرائے۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے نئی اصلاحات کو بھارت میں زرعی شعبے کی بہتری کے لیے سنگِ میل قرار دیا ہے جب کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اسے کسانوں کے حقوق پر ڈاکہ زنی قرار دیا۔
مذکورہ قوانین کے ذریعے زراعت میں نجی شعبے کے کردار کو بڑھایا گیا ہے۔ جب کہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے کسان اپنی اجناس آزادانہ طور پر کھلی منڈیوں میں فروخت کر سکیں گے۔
ٔٔزرعی اصلاحات کے تحت نجی شعبے کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ ضروری اجناس کسانوں سے خرید کر مستقبل میں فروخت کے لیے ذخیرہ بھی کر سکتے ہیں۔ جب کہ اس سے قبل یہ حکومت خود کرتی تھی۔
نئے قوانین میں ‘کنٹریکٹ فارمنگ کی اصطلاح بھی متعارف کرائی گئی ہے جس میں خریدار کی ڈیمانڈ کے مطابق کاشت کار اجناس کاشت کریں گے۔
ان اصلاحات سے اجناس کی فروخت، قیمت کے تعین اور ذخیرہ کرنے کے موجودہ قوانین کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔
سب سے بڑی تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ کسان اپنی اجناس مارکیٹ پرائس پر زرعی کاروبار سے وابستہ افراد، بڑے سپر اسٹورز اور آن لائن گروسری اسٹورز کو فروخت کر سکیں گے۔اس سے قبل کسان کم سے کم یقینی قیمت پر اجناس سرکاری گوداموں اور منڈیوں میں فروخت کرتے تھے۔
کسانوں کے مطالبات کیا ہیں؟
ٔزرعی اصلاحات سے متعلق منظور کیے گئے تینوں بل فوری واپس لیے جائیں۔
زرعی اجناس کی امدادی قیمت سرکار متعین کرے اور وہی کسانوں سے اجناس خریدے جب کہ اس عمل کو قانونی درجہ دیا جائے۔
اجناس کی امدادی قیمت سے متعلق ‘سوامی ناتھ کمیشن کی سفارشات پر عمل کیا جائے۔
زرعی استعمال کے لیے ڈیزل کی قیمتوں میں 50 فیصد کمی کی جائے۔
کاشت کاری کے لیے بجلی کی کمرشل قیمت مقرر کرنے کے بجائے جو فلیٹ ریٹ پہلے سے متعین ہیں اسے ہی برقرار رکھا جائے۔
بھارت بھر میں کسانوں رہنماؤں پر درج کیے گئے مقدمات واپس لیے جائیں۔
ایئر کوالٹی کمیشن آرڈیننس 2020 فوری طور پر واپس لیا جائے۔
کسانوں کو تحفظات ہیں کہ قوانین میں تبدیلیوں سے سالہا سال سے اُنہیں حاصل سرکاری تحفظ ختم ہو جائے گا اور نجی شعبے کو کسانوں کا استحصال کرنے کا موقع مل جائے گا۔
ناقدین کسانوں کے بعض مطالبات کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں۔ خاص طور پر ایئر کوالٹی کمیشن کے خاتمے کا مطالبہ، جو دارالحکومت نئی دہلی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔اس کمیشن کے تحت فصلوں کی باقیات جلانے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
حکومت کیا کہتی ہے؟
لیکن حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ یہ قوانین کسانوں کے مفاد کو ذہن میں رکھ کر بنائے گئے ہیں اور ان کے نفاذ سے کسانوں کو منڈیوں میں ‘مڈل مین سے نجات مل جائے گی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اجناس کی کم سے کم امدادی قیمت یعنی مینیمم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) برقرار رہی گی جب کہ منڈی کا نظام بھی چلتا رہے گا۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ مذکورہ قوانین ان چھوٹے کسانوں کی مدد کے لیے بنائے گئے ہیں جو اپنی پیداوار کے لیے نہ تو سودے بازی کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔
ان قوانین کے تحت کسان اپنی پیداوار کو منڈیوں کے باہر بھی ان لوگوں کو فروخت کر سکیں گے جو انہیں خریدنا چاہیں۔ وہ پرائیویٹ کمپنیوں سے بھی معاہدہ کر سکیں گے۔ اسے کنٹریکٹ فارمنگ کہتے ہیں۔
ان قوانین کے تحت کسان زرعی تاجروں یا نجی کمپنیوں کو مارکیٹ قیمتوں پر اپنی پیداوار فروخت کر سکیں گے۔ زیادہ تر کسان اپنی پیداوار حکومت کے زیرِ انتظام تھوک منڈیوں میں مقرر کردہ قیمت کے تحت فروخت کرتے رہے ہیں۔
احتجاج کن کن علاقوں میں ہو رہا ہے؟
جن ریاستوں میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی حکومت ہے وہاں ہڑتال کے باعث معمولاتِ زندگی بری طرح متاثر ہیں جب کہ مبصرین نے حکومت کی زیرِ اثر ریاستوں میں احتجاج کم زور قرار دیا ہے۔
کسانوں نے گزشتہ دنوں اپنے احتجاج کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے ‘بھارت بند’ کا سلوگن متعارف کرایا تھا جس کا مقصد ملک بھر میں احتجاج کو وسعت دینا ہے۔
ملک بھر میں ہڑتال کا سب سے زیادہ اثر پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش میں دیکھا گیا۔ ان ریاستوں میں ہزاروں کسانوں نے اہم شاہراہیں اور سڑکیں بند کر دیں۔ بازار، دکانیں اور تجارتی ادارے بھی مکمل طور پر بند رہے۔
متعدد ریاستوں میں نقل و حمل پر برا اثر پڑا۔ دارالحکومت دہلی میں بھی ہڑتال کا اثر نظر آیا۔ متعدد علاقوں میں بازار بند رہے اور ٹریفک کا نظام بھی متاثر رہا۔
مغربی بنگال، بہار، اڑیسہ اور مہاراشٹر میں کسانوں اور سیاسی کارکنوں نے ریل کی پٹریوں پر قبضہ کر لیا۔ محکمہ ریلوے نے پہلے ہی متعدد ٹرینوں کی منسوخی یا ان کے روٹ بدلنے کا اعلان کیا تھا۔
کسانوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے لیے اب بھی کوششیں جاری ہیں۔
بھارت کی کئی اپوزیشن جماعتیں بشمول انڈین نیشنل کانگریس کسانوں کے اس احتجاج کی حمایت کر رہی ہیں۔