اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت واطاعت کا مکلف کرتے ہوئے، اس روئے زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کیا تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کی شریعت پر عمل کرے اور ایک منصفانہ سماج کی تشکیل کے لئے کوشاں رہے۔
اس مقصد کے حصول کے لئے یقینا جسمانی ومالی دونوں طرح کی قربانی درکار ہوتی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے ہرگز بھلائی نہیں پاوگے۔ (سورہ آل عمران ۹۲) اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے بندوں کی مدد کرنا یعنی اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کے چند فضائل تحریر ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بڑھا چڑھا کردے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔ (سورة البقرہ ) ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو، اور زوردار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دگنا لاوے اور اگر اس پر بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ (سورة البقرہ )
جس قدر خلوص کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کریں گے، اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا اجر وثواب زیادہ ہوگا۔ ایک روپئے بھی اگر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کسی محتاج کو دیا جائے گا، تو اللہ تعالیٰ 700 گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب دے گا۔
اللہ تعالیٰ کی راہ میں پسندیدہ چیزیں خرچ کرنا:۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے ہرگز بھلائی نہیں پاوگے۔ (سورہ آل عمران ) اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے خرچ کرو۔ (سورة البقرة) جب {لَن تَنَالوا البِرَّ حَتَّی تنفِقوا مِمَّا تحِبّونَ} آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوطلحہؓ حضور اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے محبوب چیز کے خرچ کرنے کا ذکر فرمایا ہے، اور مجھے ساری چیزوں میں اپنا باغ (بَیرحَاء)سب سے زیادہ محبوب ہے، میں اس کو اللہ کے لئے صدقہ کرتا ہوں اور اس کے اجروثواب کی اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں۔ حضور اکرم ﷺنے فرمایا : اے طلحہؓ ! تم نے بہت ہی نفع کا سودا کیا۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ میرا باغ جو اتنی بڑی مالیت کا ہے وہ صدقہ ہے اور اگر میں اس کی طاقت رکھتا کہ کسی کو اس کی خبر نہ ہو تو ایسا ہی کرتا، مگر یہ ایسی چیز نہیں ہے جو مخفی رہ سکے۔ ( تفسیر ابن کثیر)
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت عمر فاروقؓ بھی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ مجھے اپنے تمام مال میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ مال خیبر کی زمین کا حصہ ہے، میں اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اسے وقف کردو۔ اصل روک لو، اور پھل وغیرہ اللہ کی راہ میں دے دو۔ (بخاری و مسلم شریف)
حضرت محمد بن منکدرؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت زید بن حارثہ ؓ کے پاس ایک گھوڑا تھا جو ان کو اپنی ساری چیزوں میں سب سے زیادہ محبوب تھا۔ (اس زمانہ میں گھوڑے کی حیثیت تقریباً وہی تھی جو اس زمانہ میں گاڑی کی ہے) وہ اس کو لے کر حضور اکرم ﷺ کی خدمت میںحاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ صدقہ ہے، حضور اکرمﷺ نے قبول فرمالیا اور لے کر ان کے صاحبزادہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو دیدیا۔ حضرت زیدؓ کے چہرہ پر کچھ گرانی کے آثار ظاہر ہوئے (کہ گھر میں ہی رہا ، باپ کے بجائے بیٹے کا ہوگیا) حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا صدقہ قبول کرلیا، اب میں چاہے اس کو تمہارے بیٹے کو دوں یا کسی اور رشتہ دار کو یا اجنبی کو۔ غرضیکہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعدصحابہ کرامؓ کی ایک جماعت نے اپنی اپنی محبوب چیزیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں دیں، جن کو نبی اکرم ﷺ نے ضرورت مند لوگوں کے درمیان تقسیم کیں۔
صحابہ کرامؓ کی تربیت خود حضور اکرم ﷺ نے فرمائی تھی، اور ان کا ایمان اور توکل کامل تھا، لہذا ان کے لئے اپنی پسندیدہ چیزوں کا اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا بہت آسان تھا، جیسا کہ صحابہ کرامؓ کے واقعات تاریخی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ جنگ خیبر کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ کا اپنا سارا سامان اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا، حضرت عثمان غنیؓ کا ہر ضرورت کے وقت اپنے مال کے وافر حصہ کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خرچ کرنا، وغیرہ وغیرہ۔
آج ہم ایمان وعمل کے اعتبار سے کمزور ہیں اور اگر ہم {لَن تَنَالوا البِرَّ حَتَّی تنفِقوا مِمَّا تحِبّونَ}کا مصداق بظاہر نہیں بن سکتے ہیں تو کم از کم {یَا اَیّہَا الَّذِینَ امَنوا اَنفِقوا مِن طَیِّبَاتِ مَا کَسَبتم} پر عمل کرکے اپنی روزی صرف حلال طریقہ سے حاصل کرنے پر اکتفاءکریں اور اسی حلال رزق میں سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ضرورت مند لوگوں پر خرچ کریں۔
اعلانیہ صدقات :۔صدقات میں اصل پوشیدگی مطلوب ہے یعنی چپکے سے کسی محتاج کی مدد کرنا، جیساکہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ بہت محبت کرتا ہے۔ ان میں سے ایک شخص وہ بھی ہے جو کسی شخص کی اس طرح مدد کرے کہ اللہ تعالیٰ اور سائل کے علاوہ کسی کو خبر تک نہ ہو۔ (ترمذی ، نسائی)
نیز رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن سات لوگ اللہ کے عرش کے سائے میں ہوں گے، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو اس طرح صدقہ کرے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔ (بخاری، مسلم) اس کے باوجود کہ انفاق فی سبیل اللہ میں شریعت اسلامیہ نے چھپ کر دینے کی خصوصی تعلیمات دی ہیں، لیکن بعض مواقع پر اعلانیہ خرچ کرنے میں بھی مصلحت ہوتی ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے، جن میں سے بعض آیات یہ ہیں:جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن چھپ کر اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں، ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہے۔ اور نہ انہیں خوف ہے اور نہ غمگینی۔ (سورة البقرة)
جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اسے چھپ کر اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔۔ ان ہی کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔ (سورة الرعد)جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے چھپ کر اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خسارہ میں نہیں ہوگی۔(سورة الفاطر)
ان مذکورہ آیات سے معلوم ہوا کہ ہم اعلانیہ بھی اللہ تعالیٰ کے بندوں کی مدد کرسکتے ہیں، جبکہ دیگر آیات واحادیث میں چھپ کر اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔
علماءکرام نے ان آیات واحادیث کے ظاہری اختلاف کے درمیان کچھ اس طرح تطبیق کی ہے کہ زکوٰة کی ادائیگی اعلانیہ ہونی چاہئے، تاکہ اس سے دوسروں کو بھی رغبت ملے ، اور زکوٰة کی ادائیگی سے متعلق دوسروں کے شک وشبہات بھی دور ہوجائیں۔ لیکن صدقات کی عموماً ادائیگی چھپ کر ہی ہونی چاہئے۔ مگر اس حکمت بالغہ کے باوجود نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام کے زمانہ میں بے شمار مرتبہ زکوٰة کے علاوہ دیگر صدقات بھی اعلانیہ جمع کئے گئے ہیں۔
نیز اعلانیہ خرچ کرنے سے بچنے کی اصل حکمت یہ ہے کہ ریا اور شہرت مطلوب نہ ہوجائے، کیونکہ ریا،شہرت اور دکھاوا اعمال کی بربادی کے اسباب میں سے ہیں۔ لہذا خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے واسطے غریب، محتاج، یتیم اور بیواو¿ں کی مدد کے لئے اگر کسی پروگرام میں اعلانیہ اللہ کے راستہ میں دیا جائے، تو ان شاءاللہ یہ دکھاوے میں نہیں آئے گا کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ جو کام بھی کھلم کھلا کیا جائے وہ ریا ہی ہو، بلکہ دوسروں کو ترغیب دینے کے لئے بھی وقتاً فوقتاً اس طرح کے پروگرام منعقد ہونے چاہئیں ،جیساکہ نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام کے زمانہ میں جنگوں کے موقعوں پر اعلانیہ صدقات جمع کئے جاتے تھے۔ اگر صدقات اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا اصل مطلوب ومقصود ہو توکسی مصلحت سے اس کا اعلان بھی کیا جائے تو وہ ان شاءاللہ ریا میں داخل نہیں ہوگا۔
تنگ دستی اور حاجت کے وقت میں بھی اللّہ کی راہ میں خرچ کرنا:۔ صدقات کے لئے ضروری نہیں ہے کہ ہم بڑی رقم ہی خرچ کریںیا اسی وقت لوگوں کی مدد کریں جب ہمارے پاس دنیاوی مسائل بالکل ہی نہ ہوں بلکہ تنگ دستی کے ایام میں بھی حسب استطاعت لوگوں کی مدد کرنے میں ہمیں کوشاں رہنا چاہئے، جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:جو محض خوشحالی میں ہی نہیں بلکہ تنگ دستی کے موقع پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ ان کے رب کی طرف سے اس کے بدلہ میں گناہوں کی معافی ہے اور ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ (سورة آل عمران)
جو مال سے محبت کرنے کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے۔ (سورة البقرہ )مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ مال کی محبت سے مراد مال کی ضرورت ہے۔ یعنی ہمیں مال کی ضرورت ہے، اس کے باوجود ہم دوسروں کی مدد کے لئے کوشاں ہیں۔نبی اکرمﷺ سے سب سے بہتر صدقہ کے متعلق سوال کیا گیا۔ آپﷺ نے فرمایا : اس حال میں بھی خرچ کرو کہ تم صحیح سالم ہو اور زندگی کی توقع بھی ہو، اپنے غریب ہوجانے کا ڈر اور اپنے مالدار ہونے کی تمنا بھی ہو۔ یعنی تم اپنی ضرورتوں کے ساتھ دوسروں کی ضرورتوں کوپورا کرنے کی فکریں کرو۔ (بخاری، مسلم)
انفاق فی سبیل اللّٰہ کو ضائع کرنے والے اسباب:۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول مطلوب نہ ہو۔ ریا یعنی شہرت مطلوب ہو۔احسان جتانا مقصود ہو۔ صدقہ دے کر لینے والے کو طعنہ وغیرہ دے کر تکلیف پہونچائی جائے۔ لہذا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کسی کی مدد کی جائے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتاکر اور ایذا پہنچاکر برباد نہ کرو، جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے۔ (سورة البقرة)جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں نہ ایذا دیتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے، ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وہ اداس ہوں گے۔ (سورة البقرة)ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی سے خرچ کرتے ہیں۔ (سورة البقرہ)
اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے: رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: صدقہ کرنے سے مال میں کمی نہیں ہوتی ہے۔ (مسلم)
this is a best article for encourage the people to helping needy