امانت و دیانت داری کی اسلام میں بہت ہی اہمیت ہے۔ اس پر اللہ تعالی نے بے شمار اجر وثواب رکھے ہیں۔ حضور خاتم النبین رحمۃ للعالمین اعلان نبوت سے قبل ہی عرب بالخصوص مکہ مکرمہ میں صادق اور امین کے لقب سے مشہور ہوئے حتی کہ آپ ﷺ کے جانی دشمن بھی آپ ﷺ کی امانت و دیانت داری کے معترف تھے۔
محمد یوسف اصلاحی کی کتاب روشن ستارے میں کافی دلچسپ اور سبق آموز واقعات درج ہیں۔ ان میں ایک واقعہ ’’ہار کے حیرت انگیز کر شمے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ( مختصراً) قاضی ابوبکر محمد ابن عبدالباقی انصاری ؒ تاریخ اسلام کے گوہر آبدار ہیں ۔ ان کا شمار پانچویں صدی کے مشہور اولیائے اُمت میں ہوتا ہے ۔
ان کی امانت و دیانت کا ایک عجیب اور حیرت انگیز واقعہ ہے جو وہ خود بیان کرتے ہیں کہ وہ مکہ معظمہ میں مقیم تھے، انتہائی غربت کا دور تھا، فقرو فاقہ کی زندگی تھی، ایک دن بھوک سے بے قرار گھر سے باہر نکلا کہ شاید کچھ کھانے کو مل جائے ابھی کچھ ہی دور گیا تھا کہ ایک گلی میں ریشم کی ڈوری والا خوبصورت تھیلا پڑا ہوا ملا ۔
میں نے اُسے کھولا تو ایک خوبصورت موتیوں کا ہار اُس میں موجود تھا۔ میں اُسے لے کر تھوڑا آگے بڑھا تو ایک بزرگ لوگوں سے یہ کہہ رہے تھے کہ میرا ایک قیمتی ہار کھو گیا ہے جس کسی کو ملے وہ مجھے دے دے تو میں اُسے پانچ سو اشرفیاں بطور تحفہ دوں گا۔ میں آگے بڑھا اور اُن سے کہا کہ آپ میرے ساتھ چلیں، راستے میں میں یہی سوچتا رہا کہ انعام میرے لئے جائز ہو گا یا نہیں۔
بہرحال گھر پہنچا، پہچان کرانے کے بعد ہار اُن کے حوالے کر دیا ، بزرگ بہت خوش ہوئے اور پانچ سو اشرفی بطور تحفہ میرے حوالے کرنے لگے، میں عجیب کشمکش میں تھا کہ ایک طرف غربت، فاقہ کشی اور دوسری طرف غیرت ، خود داری۔ یہ تحفہ لینا اُن کا ضمیر گوارا نہیں کر رہا تھا اور بار بار جھنجھوڑ رہا تھا کہ تم نے کون سا کارنامہ کیا ہے، یہ تو تمھارا فرض تھا۔ اگر یہ فرض ادا نہ کرتے تو گناہ گار ہوتے۔
بہرحال میں نے فیصلہ کر لیا اور بزرگ کو انکار کر دیا کہ یہ تحفہ میں نہیں لے سکتا، بزرگ بہت اصرار کرتے رہے لیکن میں نے اُن سے یہ لینے سے معذرت کر لی اور دل میں اپنے اس فیصلے سے بہت سکون محسوس کیا۔
پھر کچھ ہی دنوں بعد میں سفر کے ارادے سے مکہ معظمہ سے روانہ ہوا اور ایک کشتی میں سوار ہوا۔ کشتی آگے بڑھتی رہی۔ تھوڑے فاصلے بعد یکا یک تیز ہوا اور موجیں اُٹھیں اور کشتی منزل سے بھٹک گئی، اور پھر کشتی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی، سب مسافر ڈوب گئے۔
خدا کی قدرت کہ میں ایک تختے پر سوار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور تختہ آگے بڑھتا رہا، میں بے اختیار خدا سے دعائیں مانگتا رہا، خدا کی رحمت جوش میں آئی اور تھوڑی دیر بعد ایک ساحل نظر آنے لگا اور تختہ کنارے لگ گیا، میں اُترا اور سجدۂ شکر بجا لایا۔
یہ ایک جزیرہ تھا اور قریب ہی ایک آبادی نظر آرہی تھی۔ میں آگے بڑھا تو مسجدوں کے مینار نظر آئے۔ میں مسجد گیا اور جذبے اور درد کے ساتھ تلاوت شروع کر دی۔ جزیرے کے لوگ میری آواز کی کشش سن کر میرے قریب آگئے اور کہنے لگے آپ ہمیں بھی اس طرح قرآن پڑھنا سکھا دیں۔ جزیرے میں میری شہرت ہو گئی اور لوگ مجھ سے کتابت اور قرأت سیکھنے لگے اور مجھ سے بہت محبت اور عقیدت بھی رکھنے لگے۔
وہ میرے لئے تحفے تحائف لاتے۔ ایک دن کچھ لوگ آئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ یہاں ایک نیک بزرگ رہا کرتے تھے۔ آپ کے آنے سے چند دن پہلے اُن کا انتقال ہو گیا تھا۔ اُن کی ایک حسین و جمیل، سلیقہ مند، نیک سیرت بیٹی ہے، آپ کہیں تو آپ کا پیغام لے جائیں۔ میں نے اُن کی بات تسلیم کر لی اور سوچا ایک سنت پوری ہو جائے گی۔
شادی ہو گئی جب زوجہ سے ملاقات ہوئی تو میں دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ حسین و جمیل تو تھی ہی لیکن اُس نے جو ہار پہنا ہوا تھا وہ وہی تھا جو بزرگ کو میں نے لوٹایا تھا۔ زوجہ بھی اس بات پر حیران تھیں کہ میں ہار کو اتنے غور سے کیوں دیکھ رہا ہوں۔
پھر میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور یہ ساری کہانی اپنی زوجہ اور خاندان کے لوگوں کو سنائی تو سب نے بتایا کہ اُن کے سسر جب آپ سے مل کر آئے تھی تو آپ کی دینداری کا بہت تذکرہ کرتے اور خواہش کرتے تھے کہ کاش میں اُس نوجوان سے اپنی بیٹی کی شادی کر سکتا۔
اُن کی دعا یوں پوری ہوئی کہ آپ کو قدرت یہاں کھینچ لائی اور آپ کی دیانت داری اور تقویٰ کا اُس مالک کائنات نے کیسا صلہ دیا ۔ یہ سب سن کرمیرا رواں رواں خدا کے شکر سے سرشار تھا اور بے اختیا ر میرا سر اُس کے حضور سجدے میں گر پڑا۔