جنگ تبوک کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دے رہے تھے کہ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہوکر عرض کیا ”یارسول اللہ! ساز و سامان کے ساتھ ایک سو اونٹ میں دیتا ہوں“۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ترغیب دی تو حضرت عثمان غنی نے عرض کیا ”یارسول اللہ! ساز و سامان کے ساتھ دو سو اونٹ دیتا ہوں“۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ترغیب دی تو حضرت عثمان نے پھر عرض کیا ”یارسول اللہ! ساز و سامان کے ساتھ تین سو اونٹ دیتا ہوں“۔ پھر ان تین سو اونٹوں کے علاوہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ہزار دینار (ایک روایت کے مطابق آپ نے ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے اور دس ہزار دینار اس جنگ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کردیئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان غنی کی یہ سخاوت دیکھی تو آپ کے پیش کردہ دیناروں میں اپنا دست مبارک ڈال کر فرمایا ”عثمان کے اس نیک عمل کے بعد اب انھیں کوئی بات ضرر نہ پہنچائے گی“۔ (مشکوة شریف۔)
اسی طرح جب مہاجرین مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں کا کھارا پانی انھیں پسند نہ آیا۔ مدینہ منورہ میں ایک شخص کی ملکیت میں ایک چشمہ تھا، جس کا نام ”رومہ“ تھا۔ وہ شخص اپنے چشمہ کا پانی فروخت کرتا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا کہ ”تم اپنا یہ چشمہ میرے ہاتھ جنت کے چشمہ کے عوض فروخت کردو اور جنت کا چشمہ مجھ سے لے لو“۔
اس شخص نے عرض کیا ”یارسول اللہ! میری اور میرے بچوں کی معاش اسی سے ہے، مجھ میں طاقت نہیں کہ میں ایسا کرسکوں“۔یہ خبر جب حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچی تو آپ نے ۳۵ہزار درہم نقد دے کر اس شخص سے وہ چشمہ خرید لیا اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے: ”یارسول اللہ! جس طرح آپ اس شخص کو جنت کا چشمہ عطا فرما رہے تھے، اگر میں وہ چشمہ اس شخص سے خرید کر وقف کردوں تو کیا وہ جنت کا چشمہ مجھے عطا فرمادیں گے؟“۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں دے دوں گا“۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا ”یارسول اللہ! میں نے وہ چشمہ خرید لیا ہے اور مسلمانوں کے لئے اسے وقف کرتا ہوں“۔ (طبرانی)