عقائد وعبادت کی طرح ہی معاملات بھی دین کا ایک اہم شعبہ ہے ، جس طرح عقائد اور عبادات کے بارے میں جزئیات واحکام بیان کیے گئے ہیں ،اسی طرح شریعت اسلامی نے معاملات کی تفصیلات بھی بیان کرنے کا اہتمام کیا ہے۔
حلال وحرام،مکروہ اور غیر مکروہ ، جائز اور طیب مال کے مکمل احکام قرآن وحدیث میں موجود ہیں اور شریعت کی دیگر جزئیات کی طرح اس میں بھی مکمل رہنمائی کی گئی ہے ، جولوگ نماز اور روزہ کا اہتمام کرتے ہیں، مگر صفائی معاملات اور جائز وناجائز کی فکر نہیں کرتے ، وہ کبھی اللہ کے مقرب نہیں ہوسکتے، اس لیے ان کا عمل شریعت پر ناقص ہے۔
افسوس ہے کہ عرصہٴدراز سے مسلمانوں کے درمیان معاملات سے متعلق جو شرعی احکام ہیں ان کی اہمیت دلوں سے مٹ گئی ہے اور دین صرف عقائد وعبادات کا نام سمجھا جانے لگا ، حلال وحرام کی فکر رفتہ رفتہ ختم ہوگئی ہے اور دن بہ دن اس سے غفلت بڑھتی جا رہی ہے ، جس کے سبب مسلمان اقتصادیات میں پیچھے ہیں اور خاطر خواہ معاشیات میں انھیں ترقی نہیں مل رہی ہے ۔
تجارت روزگار کا بہترین طریقہ ہے، اسے اگر جائز اور شرعی اصول کے مطابق انجام دیا جائے تو دنیوی اعتبارسے یہ تجارت نفع بخش ہوگی اور اخروی اعتبار سے بھی یہ بڑے اونچے مقام اور انتہائی اجر و ثواب کا موجب ہوگی۔
تجارت اگرچہ دنیا کے حصول اور مالی منفعت کے لیے کی جاتی ہے ، تاہم یہ خدا کا فضل ہے کہ زاویہٴ نگاہ اگر تھوڑا ساتبدیل کردیا جائے اورتجارت کرنے والے یہ سوچ لیں کہ خداکا حکم ہے ، حلال روزی کی تلاش اور حلال پیسوں کے ذریعے اولاد کی پرورش ، بیوی اوروالدین کی ضروریات کی تکمیل، اس لیے ماتحتوں کے حقوق ادا کرنے اور غریب ونادار افراد کی مدد کرنے کے لیے یہ کا روبار کر رہے ہیں اور پھر وہ کا روبار بھی اسلامی اصول کی روشنی میں کیاجائے تو ایسی تجارت کی بڑی فضیلت آئی ہے اور ایسے افراد کو انبیاء علیھم السلام وصلحاء کی معیت کی خو شخبری دی گئی ہے۔
ایک موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” التاجر الصدوق الأمین مع النبین والصدیقین والشہداء “ (سنن الترمذي)
” جوتاجر تجارت کے اندر سچائی اور امانت کو اختیار کرے تو وہ قیامت کے دن انبیاء ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا“
ایک درسری روایت میں ہے التجار یحشرون یوم القیامة فجارًا إلّا من اتقی وَبَرَّ وصدق “ (المعجم الکبیر للطبراني)
” تجار قیامت کے دن فاسق و فاجر بناکر اٹھائے جائیں گے؛ مگر جو لوگ تقوی وسچائی اور اچھی طرح سے معاملہ کرے گا وہ اس میں شامل نہیں ہوں گے“
ان دونوں احادیث میں تجارت پیشہ افراد کی بظاہر دوحالتیں بیان کی گئی ہیں : ایک میں ان کی مدح بیان کی گئی ہے تو دوسری میں اس کی مذمت ، یہ دراصل تاجر کے الگ الگ قسموں کا بیان ہے ، جو تاجر نیک نیت اور صالح ہو، تجارت سے کسبِ حلال کا ارادہ کرتا ہو ، ایسے لوگوں کا حشر بھی اچھا ہوگا اور وہ اپنی نیک نیتی اور صالحیت کی بنیاد پر قیامت کے دن اونچے مقام کے حامل ہوں گے۔
اور جولوگ تجارت اسلامی اصول سے ہٹ کر انجام دیتے ہیں ، حلال وحرام کی تمیزکے بغیر صرف دولت جمع کرنا ان کا مقصد ہوتا ہے ، فریب دے کر ، جھوٹ بول کر ، دغادے کر ، دوسروں کی جیب پر ڈاکہ ڈال کر ، بس ایسے تجارت پیشہ افراد کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاسق وفاجر کہا اوران کا حشر بھی قیامت کے دن بُرے لوگوں کے ساتھ ہوگا۔
اس لیے اہل علم اور فقہاء کرام نے قرآن وحد یث کی روشنی میں کا میاب اور نفع بخش تجارت کے لیے چند اصول بیان کیے ہیں ، جن کی روشنی میں تجارت کی جائے تو دنیا میں بھی نفع ہوگا اور آخرت کے اعتبارسے بھی یہ تجارت بے انتہاء اجروثواب کا باعث ہوگی ، یعنی ان کی یہ تجارت دین کی سرگرمیوں میں شامل ہوجائے گی، ایک تاجر کو چاہیے کہ تجارت کرتے ہوئے ضرور ان اصولوں کو پیش نظرر کھیں۔